جانور میں کیسا عیب ہو تو اس کی قربانی نہیں ہوسکتی

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ جانور میں کیسا عیب ہو تو اس کی قربانی نہیں ہوسکتی؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

درج ذیل عیوب اگر کسی جانور میں پائے جائیں تو اس کی قربانی جائز نہیں۔

(1) جس جانور میں جنوں اس حد تک ہو کہ وہ چرتا بھی نہیں۔

(2) اتنا کمزور ہو کہ ہڈیوں میں مغز نہ رہا۔

(3) جانور اندھا ہو یا ایسا کانا جس کا کانا پن ظاہر ہو۔

(4) ایسا کمزور یا لنگڑا جانور جو قربان گاہ تک خود نہ جا سکے۔

(5) ایسا بیمار جس کی بیماری ظاہر ہو۔

(6) جس کے کان یا دم یا چکی تہائی عضو سے ذیادہ کٹے ہوئے ہوں۔

(7) جس جانور کے پیدائشی دونوں کان نہ ہوں یا ایک کان نہ ہو۔

(8) جس جانور کی تہائی سے زیادہ نظر جاتی رہی۔

(9) جس کے دانت نہ ہوں یعنی دانت جھڑ گئے ہوں اور وہ گھاس کھانے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو۔

(10) بکری کا ایک تھن کٹا ہوا ہو یا خشک ہو۔

(11) گائے یا بھینس کے دو تھن کٹے ہوئے ہوں یا خشک ہوں۔

(12) جس جانور کا علاج کے ذریعے دودھ خشک کر دیا گیا ہو۔

(13) جس جانور کی ناک کٹی ہوئی ہو۔

(14) خنثی جانور یعنی جس میں نر و مادہ دونوں کی علامتیں ہوں۔

(15) جلالہ جو صرف غلیظ کھاتا ہو۔

(16) جس جانور کا ایک پاؤں کاٹ لیا گیا ہو۔

(17) سینگ جڑ تک ٹوٹ گیا اور ابھی زخم نہ بھرا ہو۔

درمختار میں ہے(لا بالعمياء والعوراء والعجفاء) المهزولة التي لا مخ في عظامها (والعرجاء التي لا تمشي إلى المنسك) أي المذبح، والمريضة البين مرضها (ومقطوع أكثر الاذن أو الذنب أو العين) أي التي ذهب أكثر نور عينها (أو) أكثر (الالية) (ولا بالهتماء) التي لا أسنان لها (والسكاء) التي لا أذن لها خلقة (الجذاء) مقطوعة رؤوس ضرعها أو يابستها، ولا الجدعاء: مقطوعة الانف،

ولا المصرمة أطباؤها: وهي التي عولجت حتى انقطع لبنها، ولا التي لا ألية لها خلقة. ولا بالخنثى (و) لا (الجلالة) التي تأكل العذرة ولا تأكل غيرها.

ترجمہ:- انڈھے، کانے اور دبلے پتلے جانور کی قربانی جائز نہیں۔ جس جانور کی ہڈیوں میں مغز نہ ہو، ایسا لنگڑا جو قربان گاہ تک نہ جا سکے اور ایسا مریض جس کا مرض واضح ہو، جس کے کان یا دم کا اکثر حصہ کاٹا ہوا ہو، یا جس کے آنکھوں کی اکثر بینائی چلی گئی ہو یا چکی کا اکثر حصہ کٹا ہوا ہو۔ اور جس کے دانت نہ ہوں یا جس کے پیدائشی کان نہ ہوں یا جس کے تھنوں کا اوپر والا حصہ کٹا ہوا ہو یا خشک ہوں اور ایسا جانور جس کا طبیبوں نے علاج کیا یہاں تک کہ اس کا دودھ خشک ہو گیا۔ اور خنثی اور جلالہ کی قربانی جائز نہیں جو صرف غلاظت کھاتا ہو۔

(الدرالمختار و ردالمحتار، کتاب الأضحیۃ، ج9، ص535، ملتقطا)

صدر الشریعہ بدر الطریقہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللّٰہ علیہ مانع قربانی عیوب بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:قربانی کے جانور کو عیب سے خالی ہونا چاہیے اور تھوڑا سا عیب ہو تو قربانی ہو جائے گی مگر مکروہ ہوگی اور زیادہ عیب ہو تو ہوگی ہی نہیں ۔ جس کے پیدائشی سینگ نہ ہوں  اوس کی قربانی جائز ہے اور اگر سینگ تھے مگر ٹوٹ گیا اور مینگ تک ٹوٹا ہے تو ناجائز ہے اس سے کم ٹوٹا ہے تو جائز ہے۔ جس جانور میں  جنوں  ہے اگر اس حد کا ہے کہ وہ جانور چرتا بھی نہیں  ہے تو اوس کی قربانی ناجائز ہے اور اس حد کا نہیں  ہے تو جائز ہے۔ خصی یعنی جس کے خصیے نکال لیے گئے ہیں  یا مجبوب یعنی جس کے خصیے اور عضو تناسل سب کاٹ لیے گئے ہوں  ان کی قربانی جائز ہے۔ اتنا بوڑھا کہ بچہ کے قابل نہ رہا یا داغا ہوا جانور یا جس کے دودھ نہ اوترتا ہو ان سب کی قربانی جائز ہے۔ خارشتی جانور کی قربانی جائز ہے جبکہ فربہ ہو اور اتنا لاغر ہو کہ ہڈی میں مغز نہ رہا تو قربانی جائز نہیں ۔

بھینگے جانور کی قربانی جائز ہے۔ اندھے جانور کی قربانی جائز نہیں اور کانا جس کا کانا پن ظاہر ہو اس کی بھی قربانی ناجائز۔ اتنا لاغر جس کی ہڈیوں  میں  مغز نہ ہو اور لنگڑا جو قربان گاہ تک اپنے پاؤں سے نہ جا سکے اور اتنا بیمار جس کی بیماری ظاہر ہو اور جس کے کان یا دم یا چکی کٹے ہوں یعنی وہ عضو تہائی سے زیادہ کٹا ہو ان سب کی قربانی ناجائز ہے اور اگر کان یا دم یا چکی تہائی یا اس سے کم کٹی ہو تو جائز ہے جس جانور کے پیدائشی کان نہ ہوں یا ایک کان نہ ہو اوس کی ناجائز ہے اور جس کے کان چھوٹے ہوں اوس کی جائز ہے۔ جس جانور کی تہائی سے زیادہ نظر جاتی رہی اوس کی بھی قربانی ناجائز ہے اگر دونوں  آنکھوں کی روشنی کم ہو تو اس کا پہچاننا آسان ہے اور صرف ایک آنکھ کی کم ہو تو اس کے پہچاننے کا طریقہ یہ ہے کہ جانور کو ایک دو دن بھوکا رکھا جائے پھر اوس آنکھ پر پٹی باندھ دی جائے جس کی روشنی کم ہے اور اچھی آنکھ کھلی رکھی جائے اور اتنی دور چارہ رکھیں جس کو جانور نہ دیکھے پھر چارہ کو نزدیک لاتے جائیں  جس جگہ وہ چارے کو دیکھنے لگے وہاں نشان رکھ دیں پھر اچھی آنکھ پر پٹی باندھ دیں  اور دوسری کھول دیں  اور چارہ کو قریب کرتے جائیں جس جگہ اس آنکھ سے دیکھ لے یہاں  بھی نشان کر دیں  پھر دونوں  جگہوں کی پیمائش کریں اگر یہ جگہ اوس پہلی جگہ کی تہائی ہے تو معلوم ہوا کہ تہائی روشنی کم ہے اور اگر نصف ہے تو معلوم ہوا کہ بہ نسبت اچھی آنکھ کی اس کی روشنی آدھی ہے۔

جس کے دانت نہ ہوں یا جس کے تھن کٹے ہوں یا خشک ہوں  اوس کی قربانی ناجائز ہے بکری میں ایک کا خشک ہونا ناجائز ہونے کے لیے کافی ہے اور گائے بھینس میں دو خشک ہوں تو ناجائز ہے۔ جس کی ناک کٹی ہو یا علاج کے ذریعہ اوس کا دودھ خشک کر دیا ہو اور خنثٰی جانور یعنی جس میں نر و مادہ دونوں  کی علامتیں ہوں اور جلّالہ جو صرف غلیظ کھاتا ہو ان سب کی قربانی ناجائز ہے۔ بھیڑ یا دنبہ کی اون کاٹ لی گئی ہو اس کی قربانی جائز ہے اور جس جانور کا ایک پاؤں  کاٹ لیا گیا ہو اوس کی قربانی ناجائز ہے۔

(بہار شریعت ج3، ص340,342، مکتبة المدینہ کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ وَ صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

کتبہ:- محمد عمیر علی حسینی مدنی غفر لہ

نظر ثانی ابو احمد مفتی محمد انس رضا قادری صاحب متعنا اللہ بطول حیاتہ