کیا فرماتے ہیں علمائے دین متین اس مسئلے کے بارے میں کہ قربانی کا جانور کیا بیچ سکتے ہیں؟
الجواب بعون الملک الوہاب ھدایۃ الحق والصواب
غنی نےقربانی کی نیت سےجو جانور خریدا اگر وہ اسے بیچتا ہے اور اس کی قیمت میں سے کچھ رقم کم کرکے بقیہ کا دوسرا جانور خرید ے،تو بیچنا ناجائز ہے اوریہ گنہگار ہوا ، اس پر توبہ لازم ہے اور بچائی ہوئی رقم صدقہ کر دے اور اگراسے بیچ کر اس کی مثل دوسرا جانور لانا چاہتا ہے ،تو بھی بیچنا مکروہ تحریمی وگناہ ہے، ہاں اگر اس سے بہتر جانور لاناچاہتا ہے،تو بیچناجائز ہے۔
اور جو شخص صاحبِ نصاب نہ ہو تو اگر جانور کا پہلے سے مالک ہو اور اس پر قربانی کی نیت کر لے ،تو فقط اس نیت کی وجہ سے اس پر قربانی واجب نہیں ہو جاتی ،لہذا اس بکرے کو بیچ سکتے ہے. اور ایسا شخص اگر کسی جانور کو قربانی کے ارادے سے خریدتا ہے تو اسی جانور کی قربانی کرنا اس کے لئے ضروری ہے اس جانور کو بیچنا اس کے لئے جائز نہیں ہے
جد الممتار میں ہے :’’اقول: تقدم فیما اذا ضلت فشری اخری فوجد الاولی فذبح الثانیۃ و ھی اقل قیمۃ من الاولی تصدق بالفضل ،وذلک لانھا و ان لم تتعین فی حق الغنی الغیر الناذر لکنہ لما شراھا للاضحیۃ فقد نوی اقامۃ القربۃ بھا ،فاذا ابدلھا بما دونھا کان رجوعاً عن بعض ما نوی فامر بالتصدق ،و قد مر فی الشرح بلفظ : (ضمن الزائد) و فی حاشیۃ عن البدائع بلفظ:(علیہ ان یتصدق بافضلھا) ۔۔۔و قال فی الھدایۃ و التبیین : (انھا تعینت للاضحیۃ حتی وجب ان یضحی بھا بعینھا فی ایام النحر ،و یکرہ ان یبدل بھا غیرھا )قال فی العنایۃ 🙁 بعینھا فی ایام النحر فیما اذا کان المضحی فقیراً و یکرہ ان یبدل اذا کان غنیا )و مطلق الکراھۃ التحریم بل زاد سعدی افندی بعد قولہ : ’’اذا کان غنیا ‘‘ (ولکن یجوز استبدالھا بخیر منھا عند ابی حنیفۃ و محمد رحمھما اللہ تعالی)خصھما لانھا عند ابی یوسف کالوقف ،فدل علی ان الاستبدال بغیر الخیر لا یجوز وقال فی العنایۃ (لو اشتری اضحیۃ ثم باعھا و اشتری مثلھا لم یکن بہ بأس ) فافھم ان لو کانت ادون منھا کان بہ بأس، ولا بأس فی المکروہ تنزیھا فیکرہ تحریما بل قال علیہ سعدی افندی : (اقول : فیہ بحث ) ای : فی المثل ایضاً بأس بل یشترط للجواز الخیرۃ کما قدّمنا عنہ‘‘ترجمہ:میں کہتا ہوں:پہلے جو مسئلہ گزرا کہ جب قربانی کا جانور گم ہوگیا اور مالک نے دوسراجانور خرید لیا اور پھر پہلا مل گیا اور اس نے دوسرا جانور ،جو پہلے سے کم قیمت کاہے، ذبح کر دیا،تو وہ شخص (پہلے جانور کی دوسرے سے ) زائدقیمت صدقہ کردے اور یہ حکم اس لیے ہے کہ اگرچہ پہلا جانور جس غنی نے نذر نہ مانی ہو،اس کے حق میں متعین نہیں ہوا تھا ،لیکن جب اس نے قربانی کے لیے جانور خریدا ،تو اس جانور کے ذریعے اس نے قربت قائم کرنے کی نیت کر لی اور جب وہ اس سے کم تر کے ساتھ بدلے گا ،تو یہ (بدلنا)اس کے بعض سے رجوع کرنا ہوگا،جس میں اس نے(قربت کی ) نیت کی تھی،لہٰذا اسے صدقہ کرنے کا حکم دیا گیا اور شرح میں ان الفاظ کے ساتھ گزرا ہے کہ وہ زائد کا ضامن ہے اور حاشیہ میں بدائع کے حوالے سے یہ الفاظ ہیں کہ اس پر لازم ہے ،وہ دونوں کے درمیان جو زیادتی ہے،اس کو صدقہ کرے ۔ہدایہ اور تبیین میں فرمایا:(جو جانورپہلے خریدا تھا)وہ قربانی کے لیے معین ہوگیا حتی کہ اس پر واجب ہے کہ قربانی کے دنوں میں بعینہ اسی جانور کی قربانی کرے اور اس کو دوسرے جانور سے بدلنا مکروہ ہے ۔عنایہ میں فرمایا :اگر قربانی کرنے والا شخص فقیر ہے ،تو قربانی کے دنوں میں بعینہ اسی جانور کی قربانی کرےاور اگر غنی ہے،تو اس کے لیے جانور بدلنا مکروہ ہے اور مطلق مکروہ ، مکروہ تحریمی ہوتا ہے ۔بلکہ سعدی آفندی علیہ الرحمۃ نے صاحب عنایہ کے قول:’’اذا کان غنیا ‘‘کے بعد یہ زائد کیا ۔’’ لیکن امام اعظم و محمد رحمہما اللہ تعالیٰ کے نزدیک قربانی کے لیے خریدے ہوئے ،جانور کو اس سے بہتر سے بدلنا جائز ہے ۔ “ تو یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ بہتر کے علاوہ سے بدلنا جائز نہیں اور سعدی آفندی نے ( بہتر سے بدلنے کے جواز کو)ان دونوں (یعنی امام ابوحنیفہ اور امام محمد)کے ساتھ خاص اس لیے کیا ، کیونکہ امام ابو یوسف علیہ الرحمۃ کے نزدیک قربانی کا جانور وقف کی طرح ہے۔
اور عنایہ میں فرمایا :اگر قربانی کاجانور خریدا،پھر اسے بیچ دیا اور اس کی مثل خریدا ،تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔تو تم اس بات کو سمجھو کہ اگر دوسرا جانور پہلے سے کم تر ہو،تو اس میں حرج ہےاور(حرج ہونا قرار دینے کا مطلب ہوا کہ یہ مکروہ تحریمی ہوگا کیونکہ) مکروہ تنزیہی میں کوئی حرج نہیں ہوتا ، لہٰذا (حرج قرار دینے کا مطلب ہوا کہ دوسرے کا پہلے سے کم تر ہونا )مکروہ تحریمی ہے ،بلکہ سعدی آفندی علیہ الرحمۃ نے فرمایا :میں کہتا ہوں:اس مسئلے میں بھی بحث ہے یعنی دوسرے جانور کا پہلے کی مثل ہونے میں بھی حرج ہے،بلکہ (جانور بدلنے)کے جواز کے لیے (دوسرے کا)بہتر ہونا شرط ہے ،جیسا کہ ہم ان کے حوالے سے پہلےذکرکر چکے ہیں ۔
(جد الممتار،کتاب الاضحیۃ ،جلد6،صفحہ 459،460 ،مکتبۃ المدینہ،کراچی)
درمختارمع ردالمحتار میں ہے:’’ان نوی وقت الشراء الاشتراک صح استحساناً و الا لا استحساناً وفی الھدایہ:والاحسن ان یفعل ذلک قبل الشراءلیکون ابعدعن الخلاف وعن صورۃالرجوع فی القربۃ وفی الخانیۃ :ولو لم ینوعندالشراءثم اشرکھم فقدکرھہچابو حنیفۃ‘‘
اگر جانور خریدتے وقت دوسروں کو شریک کرنے کی نیت کی،تو استحساناً صحیح ہے،ورنہ شریک کرنا استحساناً صحیح نہیں ہے اور ہدایہ میں ہے: بہتر یہ ہے کہ خریدنے سے پہلے یہ (دوسروں کو شریک کرنے کا عمل)کرلےتاکہ اختلاف اورقربت میں رجوع کرنے کی صورت سے بچ جائے اور خانیہ میں ہے : اگراس نےخریداری کے وقت نیت نہیں کی ،پھر دوسروں کو شریک کیا ،تو امام اعظم علیہ الرحمۃ نے اسے مکروہ کہا ہے۔
(رد المحتار علی الدر المختار ،کتاب الاضحیۃ،جلد 9،صفحہ 527،مطبوعہ کوئٹہ)
بدائع الصنائع کی میں ہے کہ:’’ہذا محمول علی الغنی إذا اشتری بقرۃ لأضحیتہ؛ لأنہا لم تتعین لوجوب التضحیۃ۔۔۔ فأما إذا کان فقیرا فلا یجوز لہ أن یشرک فیہا؛ لأنہ أوجبہا علی نفسہ بالشراء للأضحیۃ فتعینت للوجوب‘‘ یعنی یہ عمل غنی کے لئے محمول ہے اس لئے کہ جب اس نے قربانی کے لئے جانور خریداتویہ جانورقربانی کے لئے متعین نہیں ہوتا ۔ باقی فقیر کے لئے جائز نہیں کہ وہ کسی اور کو شریک کرے اس لئے کہ اس نے اپنے نفس پر پوری گائے خریدتے وقت واجب کرلی ہے اور یہ قربانی کے لئے متعین ہوگئی ہے۔
(بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع،کتاب الاضحیۃ،جلد5،صفحہ72،دار الکتب العلمیۃ،بیروت)
بدائع الصنائع میں ہے:’’ولو كان فی ملك انسان شاة، فنوى ان يضحی بها او اشترى شاة ولم ينو الاضحية وقت الشراء،ثم نوى بعد ذلك ان يضحی بها لا يجب عليه سواء كان غنيا او فقيرا، لان النية لم تقارن الشراء فلا تعتبر‘‘
اگر کسی شخص کی ملکیت میں بکری تھی اور اس نے اسے قربان کرنے کی نیت کر لی یا بکری خریدی اور خریدتے وقت قربانی کی نیت نہیں تھی ،پھر بعد میں قربانی کی نیت کر لی ،تو اس پر قربانی واجب نہیں ہو گی ،برابر ہے کہ وہ شخص غنی ہو یا فقیر ،کیونکہ نیت خریداری کے وقت نہیں تھی ،لہذا اس کا اعتبار نہیں کیا جائے گا
(بدائع الصنائع،کتاب التضحیہ،ما یجب علی الغنی دون الفقیر،ج4،ص193،مطبوعہ کوئٹہ)
اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:’’فقیر اگر بہ نیتِ قربانی خریدے،اس پر خاص اس جانور کی قربانی واجب ہوجاتی ہے۔ اگر جانور اس کی ملک میں تھا اورقربانی کی نیت کرلی یا خریدا، مگر خریدتے وقت نیت قربانی نہ تھی، تو اس پر وجوب نہ ہوگا۔
(فتاوی رضویہ،ج20،ص451،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)
اور دوسری جگہ فرماتے ہیں:(فقیر شرعی)بہ نیت قربانی جانور خریدے گا تو اس پر بھی خاص اس جانور کی قربانی واجب ہوجائے گی نہ کرے گا اور اس جانور کو دوسرے سے بدل نہیں سکتا کہ اس پر اسی جانور کی قربانی واجب ہوئی،
درمختارمیں ہے: وفقیر ماشراھا لہا لو جوبہا علیہ بذٰلك حتی یمتنع علیہ بیعہا
اور فقیر نے واجب نہ ہونے کے باوجود خریدی ہے اس لئے اس کو فروخت ممنوع ہے
(فتاوی رضویہ،ج20،ص468،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور )
صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:’’بکری کا مالک تھا اور اس کی قربانی کی نیت کر لی یا خریدنے کے وقت قربانی کی نیت نہ تھی، بعد میں نیت کر لی، تو اس نیت سے قربانی واجب نہیں ہوگی۔‘‘
(بہارِ شریعت،ج3،ص332،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ،کراچی)
مجیب :عبدہ المذنب ابو معاویہ زاہد بشیر عطاری مدنی
نظرثانی:ابو احمد مفتی محمد انس رضا قادری المدنی زیدمجدہ