کیا فرماتے ہیں علمائے اکرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کوئی کافر اگر مسجد کے لیے چندہ دے تو اس سے لینا کیسا ہے ؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
غیر مسلم مسجد میں چندہ اس لیے دیتا ہے کہ اس کی وجہ سے مسلمانوں پر احسان جتائے یا اس کے سبب مسجد کے معاملات میں مداخلت کرے تواس کا لینا ناجائز ہے اور اگر نیازمندانہ طور پر پیش کرتاہے تواس کے لینے میں حرج نہیں جب کہ اس کے عوض کوئی چیزکافر کی طرف سے خرید کر مسجد میں نہ لگائی جائے بلکہ مسلمان خود خریدیں کہ اگر کافر کا وکیل بن کر اس کی طرف سے سامان خریدا تووہ سامان کافر کی ملک ہوجائے گا اور مسجد کو کافر کی ملک سے آلودہ کرنے سے بچنا چاہیے،البتہ بہتر طریقہ یہ ہے کہ اگر کافررقم مسلمان کوہبہ کردے اور مسلمان مسجد میں لگا دے ۔بہر حال غیر مسلموں کا مال مسجد میں استعمال کرنے سے بچا جائے ،مسجد میں صحیح العقیدہ سنی مسلمان کا پیسہ لگایا جائے ۔
سورہ توبہ ،میں صاف اورصریح ارشاد ہے: ﴿ما كانَ لِلمُشرِكينَ أَن يَعمُروا مَسـٰجِدَ اللَّـهِ شـٰهِدينَ عَلىٰ أَنفُسِهِم بِالكُفرِ أُولـٰئِكَ حَبِطَت أَعمـٰلُهُم وَفِى النّارِ هُم خـٰلِدونَ ﴿١٧
ترجمہ:مشرکین کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اللہ کی مساجد تعمیر کریں درآں حالیکہ وہ خود اپنے خلاف کفر کی گواہی دینے والے ہوں، ان کے اعمال ضائع ہوگئے اور وہ دوزخ میں ہمیشہ رہنے والے ہیں
القرآن – سورۃ نمبر 9 التوبة, آیت نمبر 17
میرے آقا اعلیٰ حضرت، اِمامِ اَہلسنّت، مولاناشاہ امام اَحمد رَضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں : کسی دینی کام کے لئے کُفّار سے چندہ لینا اول تو خود ہی ممنوع اور سخت معیوب ہے ۔ رَسُوْلَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں : ہم کسی مشرک سے مدد نہیں لیتے ۔
( ابوداوٗد ج۳ص۱۰۰حدیث ۲۷۳۲ ، فتاوٰی رضویہ ج۱۴ ص ۵۶۶)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی علیہ الرحمہ ایک جگہ اور فرماتے ہیں: کافر اگر اس طور پر روپیہ دیتا ہے کہ مسجد یا مسلمانوں پر احسان رکھتا ہے یا اس کے سبب مسجد میں مداخلت رہے گی تو لینا جائز نہیں. اگر نیاز مندانہ طور پر پیش کرتا ہے تو حرج نہیں جب کہ اس کے عوض کافر کی طرف سے کوئی چیز خرید کرنہ لگائی جائے بلکہ مسلمان بطور خود خریدیں یا راہبوں مزدوروں کی اجرت میں دیں اور اس میں بھی صحیح طریقہ یہ ہے کہ کافر مسلمان کو ہبہ کردے مسلمان اپنی طرف سے لگائیں
مزید فرماتے ہیں:اگر اس نے مسجد بنوانے کی صرف نیت سے مسلمان کو روپیہ دیا یا روپیہ دیتے وقت صراحتہً کہہ بھی دیا کہ اس سے مسجد بنوا دو اور مسلمانوں نے ایسا ہی کیا تو وہ ضرور مسجد ہے اور اس میں نماز پڑھنا بھی درست ہے
(فتاویٰ رضویہ قدیم ج ٦ ص ٤٨٤ )
فتاویٰ فقیہ ملت میں ہے اگر مسجد کے تعمیری کام میں کوئی کافر حصہ لینا چاہتا ہے اور اس کے لئے رقم دے تو اسے مسجد کی تعمیر میں لگا سکتے ہیں لیکن اگر کافر سے چندہ لینے کے سبب اس بات کا اندیشہ ہو کہ مسلمانوں کو بھی مندر کی تعمیر٬ رام لیلا٬ گنپتی اور ان کے دوسرے مذہبی پروگراموں میں چندہ دینا پڑے گا یا کافر کی تعظیم کرنی پڑے گی تو ایسی صورت میں کسی بھی کام کے لیے ان سے چندہ لینا جائز نہیں لیکن چندہ ان سے بہرحال ہرگز نہ مانگے حکم مذکور اس صورت میں ہے جبکہ وہ خود دے
فتاوی فقیہ ملت ج٢
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مجیب ۔؛ مولانا فرمان رضا مدنی
نظر ثانی۔: ابو احمد مولانا مفتی انس قادری مدنی