دوسرے ملک کی قربانی میں کس دن کا اعتبار ہو گا

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ جو دوسرے ملک میں ہو اور پاکستان میں پیسے بھیج دے قربانی کا جانور خرید کر ذبح کرنے کے لیے تو کیا اس دن قربانی کی جاسکتی ہے جس دن وہاں عید نہ ہو اور پاکستان میں ہو؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جو شخص دوسرے ملک میں ہو اور پاکستان میں پیسے بھیج کر قربانی کرنا چاہے تو ضروری ہے کہ اس دن قربانی کی جائے جس  دن وہاں(بیرون ملک) بھی قربانی کا دن ہو اور پاکستان میں بھی قربانی کا دن ہو کیونکہ قربانی کے وجوبِ ادا کا سبب وقت یعنی قربانی کرنے والے کیلئے ایام نحر کا ہونا ہے، اور اگر اس کی طرف سے ایسے دن قربانی کی گئی جس دن وہاں قربانی کا دن نہیں تھا تو وقت کے بعد ہونے کی وجہ سے واجب قربانی ادا نہیں ہوگی۔

صاحب درمختار قربانی کے واجب ہونے کے سبب کو ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: “و سببھا الوقت و ھو ایام النحر”ترجمہ:- اور قربانی کے واجب ہونے کا سبب وقت ہے اور وہ ایام نحر کا وقت ہے۔

(الدرالمختار مع رد المحتار، ج9، ص520، مطبوعہ پشاور)

بدائع الصنائع میں ہے: “وأما وقت الوجوب فأيام النحر فلا تجب قبل دخول الوقت؛ لأن الواجبات المؤقتة لا تجب قبل أوقاتها كالصلاة والصوم ونحوهما، وأيام النحر ثلاثة: يوم الأضحى – وهو اليوم العاشر من ذي الحجة – والحادي عشر، والثاني عشر وذلك بعد طلوع الفجر من اليوم الأول إلى غروب الشمس من الثاني عشر”۔

ترجمہ:- بہرحال وجوب قربانی کا وقت وہ ایام نحر ہیں پس وقت داخل ہونے سے پہلے قربانی واجب نہیں ہوگی، کیونکہ واجبات موقتہ مقررہ اوقات سے پہلے واجب نہیں ہوتے، جیسے نماز روزہ وغیرہ اور ایام نحر تین دن ہیں اور یہ دس، گیارہ اور بارہ ذوالحجہ ہیں اور یہ دس ذوالحجہ کی طلوع فجر سے لیکر بارہ ذوالحجہ کی غروب آفتاب تک ہیں۔

(بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع ، ج5، ص62، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت)

مفتی منیب الرحمان صاحب دامت برکاتہم العالیہ تفہیم المسائل میں اس قسم کے ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:قربانی کا اصل سبب وقت ہی ہے، یعنی صاحبِ قربانی کے ایامِ قربانی ہیں اور ایامِ قربانی کے تعین کے لئے قربانی کے مقام کا نہیں بلکہ صاحبِ قربانی کا اعتبار ہوگا۔ البتہ دن اور رات یا نماز عید سے پہلے اور بعد کے لئے قربانی کے مقام کا اعتبار ہوگا۔پس خلاصۂ کلام یہ کہ اگر یورپی ممالک میں مقیم مسلمانوں کے ایامِ نحر شروع ہو چکے ہیں، مگر پاکستان میں ابھی ایامِ نحر شروع نہیں ہوئے، تو پاکستان میں اُن کی طرف سے قربانی قبل از وقت ہونے کی وجہ سے ادا نہیں ہوگی اور اگر یورپی ممالک میں مقیم مسلمانوں کے ایامِ نحر گزر چکے ہیں، اگرچہ پاکستان میں ابھی ایامِ نحر باقی ہیں، تو پاکستان میں ان کی طرف سے قربانی بعد از وقت ہونے کی وجہ سے جائز نہیں ہوگی۔ ایامِ نحر گزرنے کے بعد قربانی کے جانورکا صدقہ واجب ہوتا ہے، جانور کا ذبح کرنا صرف ایامِ قربانی کے ساتھ مشروط ہے۔ لہٰذا یورپ ودیگر ممالک میں مقیم مسلمانوں کی پاکستان میں قربانی صرف اُس صورت میں جائز ہوگی کہ صاحبِ قربانی جس ملک میں مقیم ہے، وہاں ابھی ایامِ قربانی جاری ہوں اور جہاں قربانی کی جارہی ہے، وہاں کے اعتبار سے بھی قربانی کے ایام جاری ہوں اور وقت بھی درست ہو۔

(تفہیم المسائل، ج8، ص212، مطبوعہ ضیاء القرآن پبلی کیشنز)

وَاللہُ اَعْلَمُ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ وَ صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

کتبہ محمد عمیر علی حسینی مدنی غفر لہ

نظر ثانی ابو احمد مفتی محمد انس رضا قادری صاحب متعنا اللہ بطول حیاتہ