جس نے پچھلے سالوں میں قربانی نہ کی ہو تو اب اس کیلئے کیا حکم ہے

کیا فرماتے ہیں علمائے دین متین اس مسئلے کے بارے میں کہ جس نے پچھلے سالوں میں قربانی نہ کی ہو تو اب اس کیلئے کیا حکم ہے؟ 

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَاب

جس شخص نے پچھلے سالوں کی قربانی واجب ہونے کے باوجود نہیں کیں تو قربانی نہ کرنے پر گناہ گار ہوا جس سے توبہ کرے اور اب اس کا ازالہ یہ ہے کہ پچھلے سالوں میں ہر سال جو ایک سال کے بکرے کی قیمت تھی وہ صدقہ کرے  

کیونکہ قربانی کے مخصوص ایام ہیں انھیں میں قربانی ہوسکتی ہے اگر وہ گزر گئے اور ان میں قربانی نہ کی تو بعد میں قربانی نہیں ہوسکتی بلکہ اتنی رقم صدقہ کرنا ہوگی.

“المحیط البرھانی” میں ہے:وإذا مضى أيام النحر، فقد فاته الذبح؛ لأن الإراقة إنما عرفت في زمان مخصوص، ولكن يلزمه التصدق بقيمة الأضحية، إذا كان ممن يجب عليه الأضحية

اور جب ایام نحر گزر گئے (اور ایام نحر میں قربانی نہ کرسکا) تو اس سے قربانی فوت ہوگئی کیونکہ اراقۃ الدم(جانور کا خون بہانا) یہ مخصوص ایام میں ہی ہوتا ہے اور لیکن(اب) اس پر لازم ہے کہ وہ قربانی کی قیمت صدقہ کرے جبکہ وہ ان میں سے ہو جن پر قربانی کرنا واجب ہوتی ہے(یعنی جب کہ وہ غنی ہو).

(المحیط البرھاني فی فقه النعماني ج6 کتاب الاضحية الفصل الرابع فيما يتعلق بالمكان، والزمان ص 91 مطبوعہ دارالکتب العلمیه البيروت)

“فتاوی عالمگیری” میں ہے:ولو لم يضح حتى مضت أيام النحر فقد فاته الذبح فإن كان أوجب على نفسه شاة بعينها بأن قال: لله علي أن أضحي بهذه الشاة سواء كان الموجب فقيرا أو غنيا، أو كان المضحي فقيرا وقد اشترى شاة بنية الأضحية فلم يفعل حتى مضت أيام النحر تصدق بها حية، وإن كان من لم يضح غنيا ولم يوجب على نفسه شاة بعينها تصدق بقيمة شاة اشترى أو لم يشتري، كذا في العتابية.

اور اگر قربانی نہ کی یہاں تک کہ ایام قربانی گزر گئے تو اس سے قربانی فوت ہوگئی ہے تو اگر اس نے اپنے اوپر کسی معین بکری کا ذبح کرنا واجب کر دیا ہو اس طرح کہ (اس نے نذر مانی کہ) مجھ پر اللہ کیلئے اس(معین) بکری کا ذبح کرنا ہے برابر ہے کہ یہ واجب کرنے والا فقیر ہو یا غنی٬ یا قربانی کرنے والا فقیر ہو اور اس نے قربانی کی نیت سے بکری خریدی اور اس نے قربانی نہیں کی یہاں تک کہ ایام قربانی گزر گئے تو (ان دونوں صورتوں میں وہ) اس زندہ بکری کو صدقہ کرے گااور جس نے (ایام قربانی میں) قربانی نہیں کی اگر وہ غنی ہے اور اپنے اوپر کسی معین بکری کی قربانی کو بھی واجب نہیں کیا تو وہ بکری کی قیمت صدقہ کرے چاہے اس نے بکری خریدی ہو یا نہ خریدی ہو. ایسا ہی “عتابیہ” میں ہے 

(الفتاوی الھندیۃ ج5 کتاب الاضحیة الباب الرابع فيما يتعلق بالمكان والزمان ص 296 دارالفکر البیروت)

“بہار شریعت” میں ہے :ایامِ نحر گزر گئے اور جس پر قربانی واجب تھی اُس نے نہیں  کی ہے تو قربانی فوت ہوگئی اب نہیں  ہوسکتی پھر  اگر اُس نے قربانی کا جانور معین کر رکھا ہے مثلاً معین جانور کے قربانی کی منت مان لی ہے وہ شخص غنی ہو یا فقیر بہرصورت اسی معین جانور کو زندہ صدقہ کرے اور اگر ذبح کر ڈالا تو سارا گوشت صدقہ کرے اُس میں  سے کچھ نہ کھائے اور اگر کچھ کھا لیا ہے تو جتنا کھایا ہے اُس کی قیمت صدقہ کرے اور اگر ذبح کیے ہوئے جانور کی قیمت زندہ جانور سے کچھ کم ہے تو جتنی کمی ہے اسے بھی صدقہ کرے اور فقیر نے قربانی کی نیت سے جانور خریدا ہے اور قربانی کے دن نکل گئے چونکہ اس پر بھی اسی معین جانور کی قربانی واجب ہے لہٰذا اس جانور کو زندہ صدقہ کر دے اور اگر ذبح کر ڈالا تو وہی حکم ہے جو منت میں  مذکور ہوا۔ یہ حکم اسی صورت میں  ہے کہ قربانی ہی کے لیے خریدا ہو اور اگر اُس کے پاس پہلے سے کوئی جانور تھا اور اُس نے اُس کے قربانی کرنے کی نیت کر لی یا خریدنے کے بعد قربانی کی نیت کی تو اوس پر قربانی واجب نہ ہوئی۔ اور غنی نے قربانی کے لیے جانور خرید لیا ہے تو وہی جانور صدقہ کر دے اور ذبح کر ڈالا تو وہی حکم ہے جو مذکور ہوا اور خریدا نہ ہو تو بکری کی قیمت صدقہ کرے

(بہار شریعت حصہ 15 قربانی کا بیان ص 340 مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)

واللہ تعالی اعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب

مجیب :عبدہ المذنب ابو معاویہ زاہد بشیر عطاری مدنی

نظرثانی:ابو احمد مفتی محمد انس رضا قادری المدنی زیدمجدہ