اجتماعی قربانی میں اندازے سے گوشت تقسیم کرنا کیسا ہے

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ اجتماعی قربانی میں اندازے سے گوشت تقسیم کرنا کیسا ہے؟ 

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِواللہ تعالی اعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب

اجتماعی قربانی میں تمام حصہ داروں میں گوشت وزن کرکے برابر برابر تقسیم کیا جائے محض اندازے سے تقسیم کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ اس میں بیع کا معنی پایا جا رہا ہے اور ہم جنس چیز کی بیع برابر برابر جائز ہے کمی و زیادتی کے ساتھ جائز نہیں ہے.اور اگرچہ گوشت کے مالک ایک دوسرے کو کم یا زیادہ دینے پر راضی بھی ہوں اور زیادتی معاف بھی کر دیں تب بھی جائز نہیں ہے.

اور اندازے سے گوشت تقسیم کے  ناجائز ہونے کی دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ گوشت اموال ربا(سودی اموال) میں سے ہے اور اس میں معنی ربا بھی پائے جاتے ہیں لہذا اسے کمی و زیادتی کے ساتھ مالک بنانا جائز نہیں ہے.

ہاں اگر شرکاء وزن کی مشقت سے بچنا چاہتے ہیں تو وہ یوں کریں کہ گوشت تقسیم کرتے وقت اس کے ساتھ کوئی دوسری چیز مثلاً کلیجی یا دل یا پائے وغیرہ ملادے تو اب اندازے سے تقسیم کرنا جائز ہوجائے گا کیونکہ ان چیزوں کو گوشت نہیں کہا جاتا لہذا اب جنس کو جنس کے بدلے نہیں دیا جا رہا بلکہ جنس کو غیر جنس کے بدلے دیا جا رہا ہے اور خلاف جنس میں کمی و زیادتی جائز ہے۔

“فتاوی قاضی خان” میں ہے:سبعة ضحوا بقرۃ و اقتسموا لحمھا وزنا جاز ، لان بیع اللحم باللحم وزنا مثلا بمثل جاز و کذالک القسمة فإن اقتسموا اللحم جزافا لا يجوز  اعتبارا بالبيع، ولو انهم اقسموا  لحمھا جزافا وحلل كل واحد منهم لاصحابه الفضل لايحوز 

سات شخصوں نے ایک گائے قربان کی اور اس کا گوشت آپس میں وزن کرکے تقسیم کیا تو یہ جائز ہے کیونکہ گوشت کو گوشت کے بدلے برابر برابر بیچنا جائز ہے اور یہی حکم تقسیم کرنے کا ہے، اگر انہوں نے آپس میں گوشت اندازاً تقسیم کیا تو جائز نہیں ہے بیع کا اعتبار کرتے ہوئے، اور اگر انہوں نے گوشت اندازے سے تقسیم کیا اور ان میں سے ہر ایک نے اپنے ساتھیوں کو زیادتی معاف بھی کر دی تو بھی جائز نہیں ہے 

(فتاوی قاضی خان ج 3 کتاب الاضحیۃ ص 237,238 مطبوعہ دارالکتب العلمیہ)

“رد المحتار شرح در مختار ” میں ہے:(قوله لا جزافا) لأن القسمة فيها معنى المبادلة، ولو حلل بعضهم بعضا قال في البدائع: أما عدم جواز القسمة مجازفة فلأن فيها معنى التمليك واللحم من أموال الربا فلا يجوز تمليكه مجازفة.

وأما عدم جواز التحليل فلأن الربا لا يحتمل الحل بالتحليل، ولأنه في معنى الهبة وهبة المشاع فيما يحتمل القسمة لا تصح اهـ وبه ظهر أن عدم الجواز بمعنى أنه لا يصح ولا يحل لفساد المبادلة 

اور “صاحب در مختار” کا قول کہ ”اندازے سے گوشت کو تقسیم نہ کیا جائے گا“ اس کی وجہ یہ ہے کیونکہ تقسیم کرنے میں مبادلہ(بیع) کا معنی پایا جارہا ہے اور اگرچہ وہ ایک دوسرے کے لئے جائز قرار دے دیں(پھر بھی جائز نہیں ہوگا).

اور”البدائع” میں (اس کے عدم جواز کی علت) یہ لکھی ہے کہ اس میں مالک بنانے کا معنی پایا جاتا ہے کا معنی پایا جاتا ہے اور گوشت اموال ربا میں سے ہے تو اس کو اندازے سے مالک بنانا جائز نہیں ہے. اور اگر وہ کمی و زیادتی کو ایک دوسرے کےلیے جائز کردیں  پھر بھی جائز نہیں ہے اور کیونکہ ربا حیلے کے ذریعے حلال ہونے کا احتمال نہیں رکھتا اور کیونکہ اس میں ہبہ کے معنی پائے جاتے ہیں اور ایسی مشترک چیز جو تقسیم ہو سکتی ہو اس کا ہبہ  کرنا جائز ہی نہیں ہے. اس سے ظاہر ہوا کہ عدم جواز اس معنی میں ہے کہ یہ جائز و درست نہیں ہے مبادلۃ المال بالمال (بیع) کی وجہ سے.

(ردالمحتار کتاب الاضحیۃ ج6 ص317 دارالفکر البیروت).

“بہار شریعت” میں ہے:اگر مشترک جانور ہے جیسے گائے اونٹ تو وزن سے گوشت تقسیم کیا جائے محض تخمینہ(اندازہ )سے تقسیم نہ کریں۔

(بہار شریعت ج3 قربانی کے جانور کا بیان حصہ 15 ص 354 مکتبۃ المدینہ)

“وقار الفتاوی” میں ہے:قربانی کا جانور سب شرکاء میں مشترک ہے اوراس کا گوشت بھی مشترک ہے تقسیم کرتے وقت کم یا زیادہ لیں تو گوشت کو گوشت سے بدلنا ہے اور اس میں زیادتی حرام ہے اور اگر اندازے سے تقسیم کریں اور وزن نہ کریں تو کمی یا زیادتی کا شبہ ہے اس لئے یہ بھی حرام ہے تول کر برابر تقسیم کرنا ضروری ہے۔

(وقار الفتاوی ج2 کتاب الاضحیہ ص 472 مطبوعہ قرآن بزم وقار الدین).

الدر المختار” میں ہے : ويقسم اللحم وزنا لا جزافا إلا إذا ضم معه من الاكارع أو الجلد) صرفا للجنس لخلاف جنسه.

اور گوشت کو وزن کرکے تقسیم کیا جائے نہ کہ اندازے سے مگر یہ کہ اس گوشت کے ساتھ کلیجی یا کھال وغیرہ ملا دی جائے ایک جنس کو دوسری جنس کی طرف پھرنے کی وجہ سے۔

(الدر المختار کتاب الاضحیۃ ص 645,646 مطبوعہ دارالکتب العلمیہ)

مجیب :عبدہ المذنب ابو معاویہ زاہد بشیر عطاری مدنی

نظرثانی:ابو احمد مفتی محمد انس رضا قادری المدنی زیدمجدہ