کیا فرماتے ہیں علماء اکرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ قربانی کے دنوں جانور کو اگر اوپر سے نیچے اتاررہے ہوں اور وہ گر کر مرجائے یا مرنے کے قریب ہو تو کیا اسے چھری پھیر سکتے ہیں؟ قربانی ہوجائے گی؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَاب
جانور نیچے اتارتے وقت اگر گر کر مرگیا تو پھر نہ قربانی ہوگی اور نہ ہی اس کا گوشت حلال ہوگا۔ اگر گرا لیکن مرا نہیں اور اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی یا مرنے کے قریب ہوگیا تو اب اس کو ذبح کرنے سے گوشت کھاناتو حلال ہوجائے گا لیکن قربانی نہ ہوگی کہ جانور میں عیب پیدا ہوگیا ۔فقیر پر نیا جانور لے کر حلال کرنا واجب نہ ہو گا اور غنی پر لازم۔
درمختار میں ہے:ذبح شاۃ مریضۃ فتحرکت اوخرج الدم حلت والا لا ان لم تدرحیاتہ عند الذبح وان علم حیاتہ حلت مطلقًا،وان لم تتحرك ولم یخرج الدم وھذا یتأتی فی منخنقۃ ومردیۃ ونطیحہ،والتی بقر الذئب بطنہا فذکاۃ ھذ الاشیاء تحلل وان کانت حیاتہا خفیفۃ وعلیہ الفتوٰی لقولہ تعالٰی الا ماذکیتم من غیر فصل ] اھ وفی ردالمحتارعن البزازی عن الاسبیجابی عن الامام اعظم رضی اﷲ تعالٰی عنہ خروج الدم لایدل علی الحیاۃ الااذ کان یخرج کما یخرج من الحی قال وھو ظاہر الروایۃ ]۔
مریض بکری ذبح کی تو اس نے حرکت نہ کی اور خون نکلا تو حلال ہے ورنہ نہیں بشرطیکہ ذبح کے وقت زندہ ہونا نہ معلوم ہوسکا اور اگر زندہ ہونا یقینا معلوم ہے تو مطلقًا حلا ل ہے اگر چہ حرکت نہ کرے، اور خون نہ نکلے یہ صورت گلا گھونٹنے،اوپر سے گرنے والے اور سینگ زدہ میں متحقق ہوتی ہے اور جس کا پیٹ بھیڑئیے نے پھاڑ دیا ہو وہاں یہ صورت ہوسکتی ہے تو ایسے جانور کا ذبح ہونا حلال کردے گا اگرچہ ان کی خفیف زندگی معلوم ہے،اسی پرفتوٰی ہے کیونکہ الله تعالٰی کا ارشاد ہے:الا ما ذکیتم یعنی جس کو تم نے ذبح کردیا،بلا تفصیل یہ حکم ہے اھ اور ردالمحتارمیں بزازی سے انھوں اسبیجابی سے انھوں نے امام اعظم رضی الله تعالٰی عنہ سے روایت کیا ہے کہ محض خون نکلنا حیات کی دلیل نہیں مگر ایسا نکلے جیسے زندہ سے نکلتاہے تو حیات کی دلیل ہے۔اور یہ ظاہر الروایۃ ہے۔(ت)
ردالمحتار کتاب الذبائح داراحیاء التراث العربی بیروت ۵ /۱۹۶
بہار شریعت میں ہے:بکری ذبح کی اور خون نکلا مگر اوس میں حرکت پیدا نہ ہوئی اگر وہ ایسا خون ہے جیسے زندہ جانور میں ہوتا ہے حلال ہے۔ بیمار بکری ذبح کی صرف اوس کے مونھ کو حرکت ہوئی اور اگر وہ حرکت یہ ہے کہ مونھ کھول دیا تو حرام ہے اور بند کر لیا تو حلال ہے اور آنکھیں کھول دیں تو حرام اور بند کر لیں تو حلال اور پاؤں پھیلا دیے تو حرام اور سمیٹ لیے تو حلال اور بال کھڑے نہ ہوئے تو حرام اور کھڑے ہوگئے تو حلال یعنی اگر صحیح طور پر اوس کے زندہ ہونے کا علم نہ ہو تو ان علامتوں سے کام لیا جائے اور اگر زندہ ہونا یقینا معلوم ہے تو ان چیزوں کا خیال نہیں کیا جائے گا بہرحال جانور حلال سمجھا جائے گا۔ ح ١۵ ص ٣١٦
فتاوی ہندیہ میں ہے:ولو اشترى أضحية وهي صحيحة العين، ثم اعورت عنده وهو موسر أو قطعت أذنها كلها أو أليتها أو ذنبها أو انكسرت رجلها فلم تستطع أن تمشي لا تجزي عنه، وعليه مكانها أخرى بخلاف الفقير، وكذلك لو ماتت عنده أو سرقت
اور اگر قربانی خریدی اور صحیح آنکھوں والا تھا پھر اندھا ہو گیااور وہ غنی ہے یا سارا کان دم وغیرہ کٹ گی یا ٹانگ ٹوٹ گئی اور وہ چلنے کی استطاعت بھی نہیں تو اس کی قربانی جائز نہ ہو گی اور اس پر دوسرا خرید کر قربانی کرنا ہو گی بر عکس فقیر کے اور اسی طرح اگر مر گیا یا چوری ہو گیا
(ج: 5، ص: 299، ط: دار الفکر)
فتاوی شامی میں ہے:(ولو) (اشتراها سليمة ثم تعيبت بعيب مانع) كما مر (فعليه إقامة غيرها مقامها إن) كان (غنيا، وإن) كان (فقيرا أجزأه ذلك)۔۔۔وكذا لو ماتت فعلى الغني غيرها لا الفقير ولو ضلت أو سرقت فشرى أخرى فظهرت فعلى الغني إحداهما وعلى الفقير كلاهما شمني.
اگر کسی نے کوئی صحیح سالم جانور خریدا پھر کوئی عیب پیدا ہو گیا جو قربانی سے مانع تھا تو غنی نیا جانور خریدے گا اور فقیر کے لیے وہی کافی ہو گا۔قربانی کا جانور مَر گیا تو غنی (یعنی صاحبِ نصاب)پرلازم ہے کہ دوسرے جانور کی قربانی کرے اور فقیر کے ذمّے دوسرا جانور واجب نہیں اگر قربانی کا جانور گُم ہو گیا یا چوری ہوگیا اور اس کی جگہ دوسرا جانور خرید لیا اب وہ مِل گیا تو غنی کو اختیار ہے کہ دونوں میں جس ایک کو چاہے قربانی کرے اور فقیر پر واجب ہے کہ دونوں کی قربانیاں کرے ۔
(ج: 6، ص: 325، ط: دار الفکر)
بہارِ شریعت میں ہے:قربانی کا جانور مَر گیا تو غنی (یعنی صاحبِ نصاب)پرلازم ہے کہ دوسرے جانور کی قربانی کرے اور فقیر کے ذمّے دوسرا جانور واجب نہیں اور اگر قربانی کا جانور گُم ہو گیا یا چوری ہوگیا اور اس کی جگہ دوسرا جانور خرید لیا اب وہ مِل گیا تو غنی کو اختیار ہے کہ دونوں میں جس ایک کو چاہے قربانی کرے اور فقیر پر واجب ہے کہ دونوں کی قربانیاں کرے مگر غنی نے اگر پہلے جانور کی قربانی کی تو اگرچِہ اُس کی قیمت دوسرے سے کم ہو کوئی حرَج نہیں اور اگر دوسرے کی قربانی کی اور اس کی قیمت پہلے سے کم ہے تو جتنی کمی ہے اتنی رقم صَدَقہ کرے ۔ہاں اگر پہلے کو بھی قربان کردیا تو اب وہ تَصَدُّق (یعنی صَدَقہ کرنا)واجِب نہ رہا۔
(بہارِ شریعت،ج3،ص342)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مجیب ۔؛ مولانا فرمان رضا مدنی
نظر ثانی۔: ابو احمد مولانا مفتی انس قادری مدنی