کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس بارے میں کہ کیا بھینس کی قربانی جائز ہے ؟
الجواب بعون الملک الوهاب اللهم هداية الحق والصواب
بھینس کی قربانی بالکل جائز ہے کیونکہ جمہور علما، فقہا،محدثین اور علمائے لغت نے اس بات کی صراحت فرمائی ہے کہ بھینس گائے ہی کی ایک قسم ہے۔
مصنف عبدالرزاق میں ایک طویل حدیث پاک میں یہ بھی ہے: وتحسب الجواميس مع البقربھینسوں کو گائے کے ساتھ شمار کیا جائے گا۔
(مصنف عبدالرزاق جلد4 ص 24 حدیث 6851 المجلس العلمی)
فقہ حنفی کی مشہور کتاب فتاویٰ شامی میں ہے:(قوله والجاموس) هو نوع من البقر كما في المغرب، فهو مثل البقر في الزكاة والأضحية والربا۔یعنی ”الجاموس(بھینس)“ یہ گائےکی ایک نوع ہےجیسا کہ(کتاب) المغرب میں ہے تو بھینس زکوٰۃ اور قربانی اور سود کے معاملے میں گائے کی طرح ہے۔
(ردالمحتار باب زکاۃ الغنم ج2 ص280)
فقہ مالکی کی بنیادی کتاب موطا امام مالک میں ہے: قَالَ مَالِكٌ: وَكَذلِكَ الْبَقَرُ وَالْجَوَامِيسُ، تُجْمَعُ فِي الصَّدَقَةِ عَلَى رَبِّهِمَا وَقَالَ: إِنَّمَا هِيَ بَقَرٌ كُلُّهَا.امام مالک فرماتے ہیں :اسی طرح گائے اور بھینسیں ہیں،صدقہ لینے میں ان کے مالک پر یہ جمع کی جائیں گی، اور امام مالک نے فرمایا کہ یہ سب گائیں ہی ہیں۔
(موطا امام مالک باب ما جاء فی زکاۃ البقر رقم الحدیث 895)
فقہ شافعی کی جامع کتاب المجموع لشرح المھذب میں ہے: فشرط المجزئ في الأضحية أن يكون من الأنعام وهي الإبل والبقر والغنم سواء في ذلك جميع أنواع الإبل من البخاتي والعراب وجميع أنواع البقر من الجواميس والعراب قربانی میں کفایت کرنے والے جانور کی شرط یہ ہے کہ وہ اَنعام میں سے ہو اور انعام سے مراد اونٹ، گائے اور بکری ہیں،قربانی کے معاملے میں اونٹوں کی تمام اقسام یعنی نختی اونٹ اور عربی اونٹ سب برابر ہیں اور گائے کی تمام اقسام یعنی بھینس اور عربی گائے سب برابر ہیں۔
(المجموع لشرح المھذب باب الاضحیۃ ج8 ص393)
فقہ حنبلی کے فقیہ ابن قدامہ حنبلی فرماتے ہیں: مسألة: قال: (والجواميس كغيرها من البقر) لا خلاف في هذا نعلمه. وقال ابن المنذر: أجمع كل من يحفظ عنه من أهل العلم على هذا، ولأن الجواميس من أنواع البقر، كما أن البخاتي من أنواع الإبلبھینسیں دیگر گائیوں کی طرح ہیں، اس معاملے میں ہم کوئی اختلاف نہیں جانتے۔ابن منذر نے فمایا کہ جن اہل علم نے ان سے علم حاصل کیا ان سب کا اس بات پر اجماع ہے،اور اس لیے کہ بھینسیں گائے کی قسم سے ہیں جیسا کہ بختی اونٹ اونٹوں کی قسم سے ہیں۔
(المغنی لابن قدامہ حنبلی ج2 ص444)
عربی لغت کی ماخذ کتب میں سے ایک کتاب تاج العروس میں ہے: الجاموس:نوع من البقر، معرب کاؤمیش وھی فارسیۃ، ج: الجوامیس۔بھینس گائے کی ایک قسم ہےفارسی کے لفظ گاؤمیش کو عربی میں منتقل کیا گیا ہے، اس کی جمع الجوامیس آتی ہے۔
(تاج العروس ج15 ص513)
اسی طرح عربی لغت کی مستند ترین کتب میں سے ایک اہم کتاب لسان العرب میں ہے:والجاموس نوع من البقر، دخیل، ویجمع جوامیس۔بھینس گائے کی ایک قسم ہے،یہ لفظ (فارسی سے عربی میں )دخیل ہے۔اس کی جمع جوامیس آتی ہے۔
(لسان العرب فصل الجیم ج6 ص43)
عربی ادب و لغت کے ماہر ابومنصور محمد بن احمد ازہری (المتوفیٰ 370ھ)فرماتے ہیں: واجناس البقر منھا الجوامیس واحدھاجاموس وھی من انبلھا واکرمھا واکثرھا البانا واعظمھا اجساما۔گائے کی اجناس میں سے بھینسیں بھی ہیں اس کی واحد جاموس آتی ہے اور یہ گائے کی سب سے اعلیٰ ،اچھی، زیادہ دودھ دینے والی اور بڑے جسم والی قسم ہے۔
(الزاھر فی غریب الفاظ الشافعی ص101)
فتاویٰ رضویہ شریف میں ہے:” بھینس کو گائے کے ساتھ لاحق نہیں کیا گیا: یہ کہنا بھینس کو گائے کے ساتھ ازروئے قیاس لاحق کیا گیا غلط ہے کیونکہ یہ مسئلہ قیاسی ہے ہی نہیں، اگر قیاس پر مدار ہوتا تو سفید نیل گائے کو گائے کے ساتھ، اور پہاڑی بکری اورہرن کو بکری کے ساتھ لاحق کرنا بدرجہ اولٰی بہترہوتا لیکن ایسا جائز نہیں۔۔۔۔علامہ طوری تکملہ بحرالرائق شرح کنز الدقائق میں تصریح فرماتے ہیں : ”قربانی کا جواز شرح مطہر میں انھیں جانوروں میں ثابت ہے جو اہلی ہوں وحشی میں نہیں، اوریہاں قیاس کو باریابی کی اجازت نہیں” تو حقیقت حال یہ نہیں ہوئی کہ اکمل کو کامل کے ساتھ لاحق کیا گیا، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ علماء کے نزدیک بھینس کا گائے کی ہی نوع میں ہونا ثابت ہوا تو انھوں نے کہا کہ قرآن کا لفظ بقر بھینس کو شامل ہے ۔“
(فتاویٰ رضویہ ج20،ص401،402 رضا فاؤنڈیشن)
بہارشریعت میں ہے:”بھینس گائے میں شمار ہے اس کی بھی قربانی ہوسکتی ہے۔ “
(بہارشریعت ج3، حصہ 15،ص339 مکتبۃ المدینہ)
ان تمام دلائل سے واضح ہوتا ہے کہ قرون اولیٰ سے اب تک تمام علمائے کرام بھینس کو گائے کی قسم ہی شمار کرتے آئے ہیں، چونکہ گائے کی قربانی جائز ہے اس لیے اس کی تمام اقسام بشمول بھینس کی قربانی بھی جائز ہے۔
و الله اعلم عزوجل و رسولہ اعلم صلی اللہ علیہ وسلم
محمدایوب عطاری