باپ کی  زندگی میں بیٹا فوت ہو جائے تو پوتے کا حصہ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ باپ کی  زندگی میں بیٹا فوت ہو جائے تو اس بیٹے کی اولاد دادا کی جائیدادمیں حصہ دارہوں گے؟

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب۔

وراثت کا استحقاق مورِث کی موت کے بعد  ثابت ہوتا ہے؛  اس لیے کسی شخص کے انتقال کے وقت اس کے جو ورثاء موجود ہوں  وہی اس کے وارث ہوتے ہیں، اس کی زندگی میں فوت ہونے والے اس کے وارث نہیں بنتے ، لہذا اگر کسی بیٹے کا انتقال والد کی زندگی میں ہی ہوجائے تو اس کے بچے (اپنے چچا کی موجودگی میں) اپنے دادا کی میراث میں شرعاً حق دار نہیں ہوں گے،  دادا کا کا انتقال ہوا اور اس کی اولاد زندہ نہیں ، پوتا زندہ ہے تو یہی اپنے دادا کی جائیداد کا وارث ہوگا

پہلی صورت میں اگر پوتے ضرورت مند ہوں اور دادا کو اندازا ہوکہ میرے بعد میرے بیٹے پوتوں کو  تبرعاً کچھ نہیں دیں گے تو دادا کو  چاہیے کہ وہ ایسی صورت میں  اپنے حصےسے کچھ مال اسے دیدے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے: أَلْحِقُوا الْفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا ، فَمَا بَقِيَ فَهُوَ لِأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ

’’وراثت کے مقررہ حصے ان کے حقداروں کو دو، پھر جو بچ جائے وہ میت کے سب سے زیادہ قریبی مذکر کے لیے ہے۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مقررہ حصہ لینے والوں کے بعد وہ وارث ہو گا جو میت سے قریب تر ہو گا، چنانچہ بیٹا، درجے کے اعتبار سے پوتے کی نسبت قریب تر ہے، اس لیے پوتے کے مقابلے میں بیٹا وارث ہو گا،

صحیح البخاري، الفرائض، باب میراث الولد من أبیہ وأمِّہٖ، حدیث: 6732)

اسی طرح امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحيح البخاری میں اس پر ایک باب باندھا ہے،اور حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا قول نقل کیا ہے کہ چچا وغیرہ کی موجودگی میں پوتا وارث نہیں بن سکتا،

کتاب: فرائض یعنی ترکہ کے حصوں کے بیان میں بَابُ مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ ابْنٌ: باب: پوتے کی میراث (کتنی ہے) جب بیٹا نہ ہو۔

وَقَالَ زَيْدٌ : وَلَدُ الْأَبْنَاءِ بِمَنْزِلَةِ الْوَلَدِ إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ وَلَدٌ،

  ذَكَرُهُمْ كَذَكَرِهِمْ، وَأُنْثَاهُمْ كَأُنْثَاهُمْ، يَرِثُونَ كَمَا يَرِثُونَ، وَيَحْجُبُونَ كَمَا يَحْجُبُونَ، وَلَا يَرِثُ وَلَدُ الِابْنِ مَعَ الِابْنِ.

زید بن ثابت نے کہا کہ بیٹوں کی اولاد بیٹوں کے درجہ میں ہے۔ اگر مرنے والے کا کوئی بیٹا نہ ہو۔ ایسی صورت میں پوتے بیٹوں کی طرح اور پوتیاں بیٹیوں کی طرح ہوں گی۔ انہیں اسی طرح وراثت ملے گی جس طرح بیٹوں اور بیٹیوں کو ملتی ہے اور ان کی وجہ سے بہت سے عزیز و اقارب اسی طرح وراثت کے حق سے محروم ہو جائیں گے جس طرح بیٹوں اور بیٹیوں کی موجودگی میں محروم ہو جاتے ہیں، البتہ اگر بیٹا موجود ہو تو پوتا وراثت میں کچھ نہیں پائے گا

(،صحيح البخاري | كِتَابُ الْفَرَائِضِ | بَابُ مِيرَاثِ ابْنِ الِابْنِ)

اور غریب پوتے کے لیے اپنی حیات میں کچھ دے دینا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

وَ  اِذَا  حَضَرَ  الْقِسْمَةَ  اُولُوا  الْقُرْبٰى  وَ  الْیَتٰمٰى  وَ  الْمَسٰكِیْنُ  فَارْزُقُوْهُمْ  مِّنْهُ  وَ  قُوْلُوْا  لَهُمْ  قَوْلًا  مَّعْرُوْفًا (۸)   ([1] )

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جب تقسیم کرتے وقت رشتہ دار اور یتیم اور مسکین آجائیں  تو اس مال میں  سے انہیں  بھی کچھ دیدو اور ان سے اچھی بات کہو۔

سورة النساء آیت نمبر ٨

                                                اس حکم پر عمل کرنے میں  مسلمانوں  میں  بہت سستی پائی جاتی ہے بلکہ اس حکم کا علم ہی نہیں  ہوتا البتہ یہ یاد رہے کہ نابالغ اور غیر موجود وارث کے حصہ میں  سے دینے کی اجازت نہیں۔

واللہ اعلم و رسولہ اعلم عزوجل صلی اللہ علیہ والہ وسلم

مجیب : مولانا محمد فرمان رضا مدنی

نظر ثانی : ابو احمد مولانا انس عطاری مدنی