کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس بارے میں کہ نماز میں عمل کثیر سے کیا مراد ہے؟ اس کی وضاحت ارشاد فرمادیں۔
الجواب بعون الملک الوهاب اللهم هداية الحق والصواب
نماز کو توڑنے والے کاموں میں سے ایک کام عمل کثیر ہے جبکہ اس کا تعلق نہ نماز سے ہو نہ ہی وہ اصلاح نماز کے لئے کیا گیا ہو،عمل کثیر کی تعریف میں مختلف اقوال ہیں مگر راجح اور زیادہ صحیح تعریف یہ ہے کہ نمازی کوئی ایسا کام کرے کہ دور سے دیکھنے والے کا گمان غالب ہوجائے کہ یہ نماز میں نہیں تو یہ عمل کثیر ہے اور اگر ایسا کام ہو جس سے دیکھنے والا شک میں مبتلا ہوجائے اسے گمان غالب نہ ہو تو یہ عمل قلیل ہے۔اس تعریف کے علاوہ کئی مسائل کو فقہاء نے عمل کثیر کے تحت ذکر کیا ہے، چند اہم مسائل ذکر کرتا ہوں۔
1- نماز میں کھانا پینا مطلقا نماز کو فاسد کردیتا ہے،جان کر ہو یا بھول کر،تھوڑا ہو یا زیادہ۔
2-دانتوں کے درمیان چنے برابر کوئی چیز تھی اسے نگل لینا۔
3- چھالیہ کو چبایا اور وہ ٹوٹی نہیں تو اگر بہت چبایا تو نماز فاسد ہوجائے گی۔
4- چھالیہ چباتے ہوئے ٹوٹ گئی تو اگر حلق میں کوئی حصہ گیا تو نماز فاسد ہوگی اگرچہ تھوڑا ہو۔
5-ایک ساتھ دو صف کی مقدار چلنا۔
6- ایک ساتھ تین بال اکھیڑنا۔
7-ایک رکن میں تین بار کھجانا اس طرح کہ کھجایا پھر ہاتھ ہٹا لیا پھر کھجایا پھر ہٹا لیا ،ایک بار ہاتھ رکھ کر چند بار حرکت دی تو یہ ایک بار کھجانا ہوگا۔
8- بچے نے ماں کی چھاتی چوسی، اگر دودھ نکل آیا تو نماز فاسد ہوجائے گی۔
9-عمامہ باندھنا۔ وغیرہ
بدائع الصنائع میں ہے:”کل عمل لو نظر الناظر الیہ من بعید لا یشک انہ فی غیر الصلاۃ فھو کثیر و کل عمل لو نظر الیہ ناظر ربما یشتبہ علیہ انہ فی الصلاۃ فھو قلیل وھو الاصح”ترجمہ:ہر وہ عمل جس کی طرف دور سے دیکھنے والا نظر کرے تو شک نہ رہے(یعنی گمان غالب ہوجائے) کہ یہ نماز میں نہیں ہے تو وہ عمل کثیر ہے اور ہر وہ عمل جس کی طرف کوئی بھی دیکھنے والا نظر کرے تو وہ شک میں مبتلا ہوجائے کہ یہ نماز میں ہے یا نہیں تو وہ عمل قلیل ہے اور یہ تعریف زیادہ صحیح ہے۔
(بدائع الصنائع،جلد 2،کتاب الصلاۃ،صفحہ 146،دار الکتب العلمیہ)
در مختار میں ہے:” (و)یفسدھا (کل عمل کثیر) لیس من اعمالھا ولا لاصلاحھا و فیہ اقوال خمسہ اصحھا (ما لا یشک) بسببہ (الناظر) من بعید (فی فاعلہ انہ لیس فیھا) و ان شک انہ فیھا ام لا فقلیل”ترجمہ:ہر وہ عمل کثیر نماز کو توڑ دیتا ہے جو نہ نماز کے اعمال سے ہو نہ ہی نماز کی اصلاح کے لئے کیا گیا ہو،اور اس کی تعریف میں پانچ اقوال ہیں سب سے زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ ہر وہ عمل جس کے سبب دور سے دیکھنے والا شک میں مبتلا نہ رہے کہ یہ عمل کرنے والا نماز میں نہیں ہے اور اگر نماز میں ہونے نہ ہونے کا شک ہو تو عمل قلیل ہے۔
(در مختار مع رد المحتار،جلد 2،کتاب الصلاۃ،باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیھا،صفحہ 464،465،دار المعرفہ)
اس کے تحت رد المحتار میں ہے:”صححہ فی البدائع و تابعہ الزیلعی و والولوالجی و فی المحیط انہ الاحسن و قال الصدر الشہید انہ الصواب و فی الخانیہ و الخلاصہ انہ اختیار العامۃ”ترجمہ:بدائع میں اس کو زیادہ صحیح قرار دیا اور زیلعی اور ولولوالجی نے ان کی متابعت کی اور محیط میں ہے یہ زیادہ اچھا ہے اور صدر شہید نے کہا کہ یہ زیادہ درست ہے اور خانیہ و خلاصہ میں ہے کہ عام طور پر علما کا مختار یہی قول ہے۔
(رد المحتار،جلد 2،کتاب الصلاۃ،باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیھا،صفحہ 465،دار المعرفہ)
جد اللمتار میں ہے:”و حاصل الکلام ان العمل الکثیر ھو الذی یغلب علی ظن الناظر انہ لیس فی الصلاۃ و یکون ذلک فیما یعمل بالید بعمل ما یقام عادۃ بالیدین و بتثلیث ما یفعل بید واحدۃ،و کذا کل حرکۃ قلیلۃ تکررت ثلاثا متوالیہ”ترجمہ:خلاصہ کلام یہ ہے کہ عمل کثیر وہ کام ہے کہ دیکھنے والے کو گمان غالب ہوجائے کہ یہ نماز میں نہیں اور یہ اس صورت میں ہوگا جب ایسا کام جو عادۃ دو ہاتھوں سے کیا جاتا ہو وہ ایک ہاتھ سے کرے اور جو کام ایک ہاتھ سے کیا جاتا ہے اس کو(ایک رکن میں) تین بار کرے،اسی طرح ہر عمل قلیل کا پے در پے تین بار ہونا۔
(جد اللمتار،جلد 3،کتاب الصلاۃ،صفحہ 351،مکتبۃ المدینہ)
بہار شریعت میں ہے:”عمل کثیر کہ نہ اعمال نماز سے ہو نہ نماز کی اصلاح کے لیے کیا گیا ہو، نماز فاسد کر دیتا ہے، عمل قلیل مفسد نہیں،جس کام کے کرنے والے کو دور سے دیکھ کر اس کے نماز میں نہ ہونے کا شک نہ رہے، بلکہ گمان غالب ہو کہ نماز میں نہیں تو وہ عمل کثیر ہے اور اگر دور سے دیکھنے والے کو شبہہ و شک ہو کہ نماز میں ہے یا نہیں ، تو عمل قلیل ہے۔
(بہار شریعت،جلد 1،حصہ 3،نماز فاسد کرنے والی چیزوں کا بیان،صفحہ 609،مکتبہ المدینہ)
علامہ شامی فرماتے ہیں:”ان المشہور عند الجمہور ان الاصح آکد من الصحیح” جمہور کے نزدیک مشہور یہ ہے کہ اصح صحیح سے زیادہ مؤکد ہے۔
کچھ آگے ارشاد فرماتے ہیں:”لو ذکر تصحیحین عن امامین ثم قال ان ھذا التصحیح الثانی اصح من الاول مثلا فانہ لا شک ان مرادہ ترجیح ما عبر عنہ بکونہ اصح”ترجمہ:اگر کوئی عالم دو اماموں سے دو تصحیحات کو ذکر کرے پھر کہے یہ دوسری تصحیح پہلی سے زیادہ اصح ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ اس سے مراد اس کو ترجیح دینا ہے جس کو اصح کے ساتھ تعبیر کیا ہے۔
(عقود رسم المفتی،صفحہ 192،دار النور،جمعیۃ اشاعۃ اہل السنہ)
فتاوی قاضی خان میں ہے: “و ان اکل او شرب عامدا او ناسیا فسدت صلاتہ لانہ لیس من اعمال الصلاۃ و ھو کثیر لانہ عمل الید و الفم الاسنان”ترجمہ: اور اگر (نماز میں) کھایا یا پیا چاہے جان کر یا بھول کر تو اس کی نماز فاسد ہوجائے گی اس لئے کہ کھانا پینا نماز کے اعمال سے نہیں اور یہ عمل کثیر بھی ہے اس لئے کہ یہ ہاتھ،منہ اور دانتوں کا عمل ہے۔
(فتاوی قاضی خان،جلد1،کتاب الصلاۃ،فصل فیما یفسد الصلاۃ،صفحہ 120،دار الکتب العلمیہ)
عالمگیری میں ہے:”اذا کان بین اسنانہ شئی من الطعام فابتلعہ۔۔۔۔ان کان مقدار الحمصہ فسدت”ترجمہ: دانتوں کے اندر کھانے کی کوئی چیز رہ گئی تھی اس کو نگل گیا۔۔۔۔ اگر چنے برابر ہے تو فاسد ہوگئی۔
(عالمگیری،جلد 1،کتاب الصلاۃ،الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ۔۔۔الخ،صفحہ 113،دار الکتب العلمیہ)
اسی میں ہے:”اذا لاک الفوفلہ فلم ینفصل منھا شئی ان کثر ذلک فسدت من اجل انہ عمل کثیر وان انفصل عنھا شئی و دخل حلقہ فسدت ولو قل”ترجمہ:جب چھالیا کو چبایا اور وہ ٹوٹی نہیں اگر زیادہ چبایا تو عمل کثیر ہونے کی وجہ سے نماز ٹوٹ جائے گی اور اگر کچھ ٹوٹ گئی اور حلق میں چلی گئی تو اگرچہ قلیل ہو نماز ٹوٹ جائے گی۔
(عالمگیری،جلد 1،کتاب الصلاۃ،الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ۔۔۔الخ،صفحہ 114،دار الکتب العلمیہ)
فتاوی شامی میں ہے:”لو مشی قدر صفین دفعہ واحدۃ”ترجمہ:اگر دو صفوں کی مقدار ایک ہی باری میں چلا۔(تو نماز فاسد ہوجائے گی)
(رد المحتار،جلد 2،کتاب الصلاۃ،باب ما یفسد الصلاۃ،صفحہ 468،دار الکتب المعرفہ)
تاتارخانیہ میں ہے:”ان نتف ثلاثا فسدت صلاتہ” ترجمہ: اگر پے در پے تین بال اکھیڑے تو نماز فاسد ہوجائے گی۔
(تاتارخانیہ،جلد 1،کتاب الصلاۃ،باب ما یفسد الصلاۃ وما لا یفسد،صفحہ 589)
بہار شریعت میں ہے:”ایک رکن میں تین بار کھجانے سے نماز جاتی رہتی ہے، یعنی یوں کہ کھجا کر ہاتھ ہٹا لیا پھر کھجایا پھر ہاتھ ہٹالیا وعلیٰ ہذا اور اگر ایک بار ہاتھ رکھ کر چند مرتبہ حرکت دی تو ایک ہی مرتبہ کھجانا کہا جائے گا۔”
(بہار شریعت،جلد 1،حصہ 3،صفحہ 614،مکتبۃ المدینہ)
حلبی کبیر میں ہے:”و ان مص صبی ثدی امراۃ تصلی ان خرج منھا اللبن تفسد”ترجمہ:اور اگر بچے نے عورت کی چھاتی چوسی حالانکہ عورت نماز میں تھی تو اگر اس سے دودھ نکل آیا تو نماز فاسد ہوجائے گی۔
(حلبی کبیر،صفحہ 442)
فتاوی قاضی خان میں ہے:”و ان تعمم فسدت صلاتہ”ترجمہ:اور اگر عمامہ باندھا تو اس کی نماز فاسد ہوجائے گی۔
(فتاوی قاضی خان،جلد1،کتاب الصلاۃ،فصل فیما یفسد الصلاۃ،صفحہ 119،دار الکتب العلمیہ)
واللہ اعلم عزوجل و رسولہ اعلم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کتبہ : ابو بنتین محمد فراز عطاری مدنی بن محمد اسماعیل
ابو احمد مفتی انس رضا قادری دامت برکاتہم العالیہ
( مورخہ 16 اگست 2021 بمطابق 07 محرم الحرام 1442ھ بروز پیر )