سوال : کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے میں کہ طلاق دینا جائز عمل ہے یا ناجائز ہے؟
الجواب
چونکہ طلاق دینا اللہ عزوجل کے نزدیک حلال چیزوں میں سب سے زیادہ ناپسند چیز ہے اور شیطان کے نزدیک تمام چیزوں سے بڑھ کر محبوب ہے لہذا صرف ضرورت کے وقت طلاق دینا جائز ہے وگرنہ ممنوع ہے۔
حدیث پاک کی کتاب سنن ابی داؤد شریف میں یہ حدیث ہے کہ: مَا أَحَلَّ اللَّهُ شَيْئًا أَبْغَضَ إِلَيْهِ مِنَ الطَّلَاقِ
یعنی اللہ عزوجل کے نزدیک حلال چیزوں میں طلاق سے زیادہ کوئی چیز مبغوض( ناپسند) نہیں
سنن أبي داود – باب في كراهية الطلاق -جلد 2 ص254 المكتبة الشاملة الحديثة
اسی طرح سنن دار قطنی میں یہ حدیث موجود ہے کہ عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ , قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَلَا خَلَقَ اللَّهُ شَيْئًا عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ أَبْغَضَ إِلَيْهِ مِنَ الطَّلَاقِ
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھ سے حضور ﷺ نے ارشا د فرمایا کہ کہ روئے زمین پر اللہ تعالیٰ نے طلاق سے زیادہ ناپسندچیز کو پیدا نہیں فرمایا
(سنن الدارقطني – كتاب الطلاق والخلع والإيلاء وغيره -ص63 المكتبة الشاملة الحديثة)
علامہ شرفُ الدّین حسین بن عبداللہ طِیْبی علیہ رحمۃ اللہ القَوی شرح مشکاۃ میں فرماتے ہیں: أن أبغض الحلال مشروع وهو عند الله مبغوض، كأداء الصلاة في البيوت لا لعذر، والصلاة في الأرض المغصوبة، وكالبيع في وقت النداء يوم الجمعة. ولأن أحب الأشياء عند الشيطان التفريق بين الزوجين كما مر، فينبغي أن يكون أبغض الأشياء عند الله تعالي
ترجمہ: طَلاق مَشْروع ہے یعنی دیں گے تو ہوجائے گی مگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک مَبْغُوض یعنی ناپسندیدہ ہے جیسا کہ بغیر عُذرِ شرعی کے فرض نماز گھر میں پڑھنا، غَصْب شُدَہ زمین میں نماز پڑھنا (کہ ان دونوں صورتوں میں نماز ہوجائے گی مگر اس طرح کرنے والا گناہ گار ہوگا)، اسی طرح جمعہ کے دن اذانِ جمعہ کے بعدخریدوفروخت کرنا (کہ یہ خریدوفروخت ہوجائے گی مگر کرنے والے گناہ گار ہوں گے)۔ اور چونکہ تمام چیزوں میں سب سے زیادہ پسندیدہ چیز میاں بیوی میں جدائی ڈالنا ہے اس لیے یہ اللہ عزوجل کے نزدیک سب سے ناپسندیدہ چیز ہے۔
كتاب شرح المشكاة للطيبي الكاشف عن حقائق السنن – باب الخلع والطلاق -جلد 7 ص2342 -المكتبة الشاملة الحديثة
علامہ علی بن سلطان محمد قاری حنفی علیہ رحمۃ اللہ کتاب مرقاۃ المفاتیح میں فرماتے ہیں کہ: وَالْأَصَحُّ حَظْرُهُ إِلَّا لِحَاجَةٍ لِلْأَدِلَّةِ الْمَذْكُورَةِ، وَيُحْمَلُ لَفْظُ الْمُبَاحِ عَلَى مَا أُبِيحَ فِي بَعْضِ الْأَوْقَاتِ، أَعْنِي أَوْقَاتَ تَحَقُّقِ الْحَاجَةِ الْمُبِيحَةِ،
ترجمہ: زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ حاجت کے علاوہ طَلاق دینا ممنوع ہے، لفظِ مُباح اس چیز پربھی بولا جاتا ہے جو بعض اوقات میں مباح ہو، یعنی طلاق صرف اس وقت دینا مباح ہے جب اس کی حاجت و ضرورت مُتَحَقَّق ہو۔
– كتاب مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح – باب الخلع والطلاق – جلد 5 ص2137 المكتبة الشاملة الحديثة
کتاب المبسوط میں صرف ضرورت کے وقت طلاق دینے کے جائز ہونے کے حوالے سے ہے: وَمِنْ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ لَا يُبَاحُ إيقَاعُ الطَّلَاقِ إلَّا عِنْدَ الضَّرُورَةِ لِقَوْلِهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – «لَعَنَ اللَّهُ كُلَّ ذَوَّاقٍ مِطْلَاقٍ» وَقَالَ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – «أَيُّمَا امْرَأَةٍ اخْتَلَعَتْ مِنْ زَوْجِهَا مِنْ نُشُوزٍ فَعَلَيْهَا لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ» وَقَدْ رُوِيَ مِثْلُهُ فِي الرَّجُلِ يَخْلَعُ امْرَأَتَهُ وَلِأَنَّ فِيهِ كُفْرَانَ النِّعْمَةِ فَإِنَّ النِّكَاحَ نِعْمَةٌ مِنْ اللَّهِ تَعَالَى عَلَى عِبَادِهِ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى {وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا} [الروم: 21] وَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى {زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنْ النِّسَاءِ} [آل عمران: 14] الْآيَةَ وَكُفْرَانُ النِّعْمَةِ حَرَامٌ، وَهُوَ رَفْعُ النِّكَاحِ الْمَسْنُونِ فَلَا يَحِلُّ إلَّا عِنْدَ الضَّرُورَةِ
صرف ضرورت ہی کے وقت طلاق دینا جائز ہے کہ حضور اکرم ا کا ارشادِ گرامی ہے : ’’اللہ کی لعنت ہے ذائقہ چکھنے والے اور بہت زیادہ طلاق دینے والے پر اور اس عورت پر جس نے اپنے شوہر سے نا واجبی خلع کا مطالبہ کیا اس پر خدا اور تمام فرشتوں اورتمام لوگوں کی لعنت ہے اور اس طرح کے الفاظ اس مرد کے بارے میں بھی مروی ہیں جو اپنی بیوی سے خلع کرے کیونکہ اللہ عزوجل کے اس فرمان ” اللہ کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے تمھارے لیے تمھاری ہی جنس سے عورتیں بنائیں” اور اس فرمان کہ ” لوگوں کے لیے ان کی خواہشات کی محبت کو عورتوں سے آراستہ کیا گیا” کی وجہ سے نکاح بندوں کے لیے اللہ کی طرف سے نعمت ہے اور طلاق دے کر نکاح کو ختم کرنا کفران نعمت (نعمت کی نا شکری ) ہے اور کفران نعمت حرام ہے اسی لیے طلاق دینا صرف ضرورت کے وقت جائز ہے ۔
كتاب المبسوط للسرخسي – كتاب الطلاق -جلد 6 ص2342 المكتبة الشاملة الحديثة
فتاوی رضویہ میں سرکار اعلی حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے کہ: اگر شوہر کو طلاق کی کوئی حاجت ہے تو مباح ہے ورنہ طلاق دینا ممنوع ہے، یہی قول صحیح ہے اور اسی قول کی دلائل سے تائید کی گئی ہے۔
(فتاویٰ رضویہ،ج 12،ص321،322 ملخصاً)
واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل و ﷺ
کتبہ محمد وقاص عطاری
نظر ثانی ابو محمد مفتی انس رضا قادری حفظہ اللہ تعالی
18 محرم الحرام 1443 ہجری