کیا حضور کو معلوم تھا کہ امام حسین کو شہید کیا جائے گا

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ کیا حضور نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو معلوم تھا کہ امام حسین کو شہید کیا جائے گا؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے معجزات میں سے ایک معجزہ یہ ہے کہ آپ نے مستقبل میں پیش آنے والے واقعات کی خبریں دی ہیں۔ انہی اخبارِ غیبیہ میں سے ایک امام حسین رضی اللّٰه عنہ کی شہادت کی خبر ہے۔ حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شہادت کا علم ہونے کے ساتھ جائے شہادت کا بھی علم تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امام حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے والوں کے نام تک سے بھی امت کو آگاہ فرما دیا تھا۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : يا ام سلمه اذا تحولت هذه التربۃ دما فاعلمي ان ابني قد قتل فجعلتها ام سلمة في قارورة ثم جعلت تنظر اليها کل يوم و تقول ان يوما تحولين دما ليوم عظيم

ترجمہ : اے ام سلمہ (رضی اللہ عنہا) جب یہ مٹی خون میں بدل جائے تو جان لینا کہ میرا یہ بیٹا قتل ہوگیا ہے۔ ام سلمہ رضی اللہ عنھا نے اس مٹی کو بوتل میں رکھ دیا تھا اور وہ ہرروز اس کو دیکھتیں اور فرماتیں اے مٹی! جس دن تو خون ہوجائے گی وہ دن عظیم ہوگا۔

 (الخصائص الکبری،جلد2،صفحہ125)

کنز العمال میں ہے: إِنَّ اِبْنِیْ ہَذَا یَعْنِی الْحُسَیْنَ یُقْتَلُ بِأَرْضٍ مِنْ أَرْضِ الْعِرَاقِ یُقَالُ لَہَا کَرْبَلَاء ، فَمَنْ شَہِدَ ذَلِکَ مِنْہُمْ فَلْیَنْصُرْہُ-

ترجمہ: یقینا میرا یہ بیٹایعنی حسین رضی اللہ عنہ عراق کے ایک علاقہ میں شہیدکیا جائے گا، جسے کربلا کہا جائے گا،تو افراد امت میں سے جو اس وقت موجود ہو اسے چاہئیے کہ ان کی نصرت وحمایت میں کھڑا ہوجائے۔

(کنز العمال، جلد12، ص130،حدیث نمبر34314)

ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

يُقْتَلُ حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ رضی الله عنهما عَلٰی رَأْسِ سِتِّيْنَ مِنْ مُهَاجَرَتِي.

حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو میری ہجرت کے ساٹھویں سال کے آغاز پر شہید کر دیا جائے گا۔

(رَوَاهُ الطَّبَرَانيُّ وَالدَّيْلَمِيُّ وَزَادَ فِيْهِ: حِيْنَ يَعْلُو الْقَتِيْرُ، الْقَتِيْرُ: الشَّيْبُ.)

اس حدیث کو امام طبرانی اور دیلمی نے روایت کیا ہے۔ امام دیلمی نے ان الفاظ کا اضافہ کیا ہے: جب ایک (اَوباش) نوجوان ان پر چڑھائی کرے گا۔

(طبراني، المعجم الکبير، 3: 105، رقم: 2807، الموصل: مکتبة الزهراء)

 حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا: لَا يَزَالُ أَمْرُ أُمَّتِي قَائِمًا بِالْقِسْطِ. حَتّٰی يَکُوْنَ أَوَّلَ مَنْ يَثْلِمُهُ. رَجُلٌ مِنْ بَنِي أُمَيَةَ. يُقَالُ لَهُ يَزِيْدُ.

یعنی: میری امت دین و انصاف پر قائم رہے گی، حتیٰ کہ ایک شخص اقتدار پر آئے گا۔ یہ پہلا شخص جو میرے دین کی قدروں کو پامال کردے گا۔ وہ شخص بنو امیہ میں سے ہوگا۔ اُس کا نام یزید ہوگا۔

(مسند ابی يعلی، ، 2: 176، رقم: 871، دمشق: دار المأمون، للتراث)

واللّٰه تعالی اعلم بالصواب۔

کتبه: ندیم عطاری مدنی حنفی۔

نظر ثانی: ابو احمد مفتی انس رضا قادری۔