حضرت عمر فاروق کی شہادت کس دن ہوئی

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے میں کہ حضرت عمر فاروق کی شہادت کس دن ہوئی؟

جواب

حضرت عمر فاروق کی شہادت یکم محرم الحرام سن 24 ہجری کو ہوئی ،جیسا کہ تاریخ کی مشہور کتابوں میں اس کو ذکر کیا گیا ہے

تاریخ دمشق میں ہے کہ: أخبرنا أبو الأعز قراتكين بن الأسعد أنا أبو محمد الجوهري أنا أبو الحسن بن لؤلؤ أنا محمد بن الحسين بن شهريار نا أبو حفص الفلاس قال واستخلف أبو بكر عمر فملك عمر عشر سنين وستة أشهر وثمان ليال وطعن لليال بقين من ذي الحجة فمكث ثلاث ليال ثم مات يوم السبت لغرة المحرم سنة أربع وعشرين ۔ترجمہ کا خلاصہ: حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے خلیفہ بنے اور آپ نے دس سال چھ مہینے آٹھ راتیں خلافت کی، ذوالحجہ کی جب تیں راتیں باقی تھیں اس وقت آپ پر حملہ کیا گیا اور آپ نے تین راتیں زخمی حالات میں گزارنے کے بعد یکم محرم الحرام سن 24 ہجری کو ہفتے کے دن وفات پائی۔

(كتاب تاريخ دمشق لابن عساكر – عمر بن الخطاب بن نفيل بن عبد العزى بن رياح بن عبد الله بن قرط بن رزاح -جلد44 صفحہ 478، المكتبة الشاملة الحديثة )

اسی طرح کتاب المحن میں ہے کہ: قَالَ ابْن اسحاق وحَدثني يَحْيَى بْنُ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ أَبِيهِ (عَنْ جَدِّهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ قَالَ طُعِنَ عُمَرُ يَوْمَ الأَرْبَعَاءِ لِثَلاثٍ بَقِينَ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ ثُمَّ بَقِيَ ثَلاثَةَ أَيَّامٍ ثُمَّ مَاتَ رَحِمَهُ اللَّهُ

ترجمہ کا خلاصہ: حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر بدھ کے دن اس وقت حملہ کیا گیا جب ذوالحجہ کے ختم ہو نے میں تین راتیں باقی تھیں پھر آپ نے تین دن بعد وفات پائی یعنی یکم محرم الحرام کو۔

(كتاب المحن – ذكر مقتل عمر بن الخطاب رحمه الله وكيف أصيب – صفحہ 67 المكتبة الشاملة الحديثة)

کچھ لوگ اس طرح کا اعتراض کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت یکم محرم الحرام کو نہیں ہوئی اور اہل سنت کی معتبر کتابوں سے اس کو ثابت کرتے ہیں ،جیسا کہ طبقات ابن سعد کے حوالے سے یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اس میں 26 ذو الحجہ کو شہادت کا ذکر ہے

اس اعتراض کے جوابات اس طرح دئے گئے ہیں کہ:

پہلا جواب یہ کہ انہوں نے اپنی اس کتاب میں جس عنوان کے تحت اس کو ذکر کیا ہے اس باب کا عنوان ہی یہ بنایا ہے کہ (حضرت عمر کی مدت خلافت اور حضرت عمرفارق کی عمر کے  متعلق مختلف اقوال۔یعنی امام ابن سعد نے ان مختلف اقوال کو ذکر کیا ہے جن میں تاریخ شہادت  مختلف بیان کی گئی ہیں لیکن اس معاملے میں از خود کوئی واضح تاریخ معین نہیں فرمائی۔

تاریخ طبری کے حوالے یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اس میں 26 ذو الحجہ کو شہادت کا ذکر ہے۔ اس اعتراض کے جوابات اس طرح دئے گئے ہیں کہ

امام طبری نے ان مختلف اقوال کو ذکر کیا ہے جن میں تاریخ شہادت مختلف بیان کی گئی ہیں۔ چنانچہ پہلا قول تو 27 ذی الحجہ کا بتایا ہے: قَالَ: ثُمَّ تُوُفِّيَ لَيْلَةَ الأَرْبِعَاءِ لثلاث ليال بقين من ذي الحجة سنة ثَلاثٍ وَعِشْرِينَ

ترجمہ کا خلاصہ ” پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا انتقال بدھ کی رات 27 ذوالحجہ کو ہو۔

(كتاب تاريخ الطبري تاريخ الرسل والملوك وصلة تاريخ الطبري – ذكر الخبر عن وفاه عمر جلد4 صفحہ 193 مکتبہ شاملہ)

اس کا جواب یہ ہے کہ  یہ روایت نہایت کمزور ہے کیونکہ اس قول کو بیان کرنے والے دو راوی سلیمان بن عبد العزیز اور جعفر بن عبد الرحمن تو مجہول الحال ہیں اور ایک راوی عبد العزیز  بن عمران متروک ہے۔

دوسرا قول یکم محرم الحرام کا ذکر کیا ہے: قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ: وَقَدْ قِيلَ إِنَّ وَفَاتَهُ كَانَتْ فِي غُرَّةِ الْمُحَرَّمِ سَنَةَ أَرْبَعٍ وَعِشْرِينَ.ترجمہ کا خلاصہ : حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا انتقال یکم محرم الحرام 24 سن ہجری کو ہوا۔

(كتاب تاريخ الطبري تاريخ الرسل والملوك وصلة تاريخ الطبري – ذكر الخبر عن وفاه عمر جلد4 صفحہ 193 مکتبہ شاملہ)

یہ قول بلکل صحیح ہے۔

تیسرا قول 26 ذی الحجہ کا ذکر کیا ہے:(تیسرا قول )قال: فذكرت ذلك لعثمان الأخنسي، فقال: ما أراك إلا وهلت، توفيعمر رضي اللَّه تعالى عنه لأربع ليال بقين من ذي  الحجة، وبويع لعثمان بْن عفان لليلة بقيت من ذي الحجة، فاستقبل بخلافته المحرم سنة أربع وعشرين.

ترجمہ کا خلاصہ : ابن سعد کہتے ہیں کہ میں عثمان اخنسی نے کہا کہ میری رائے کے مطابق حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی وفات 26 ذوالحجہ کو ہوئی اور حضرت عثمان کی 29 ذوالحجہ کو بیعت لی گئی اور انھوں نئ یکم محرم الحرام کو خلافت  سنبھالی۔

(كتاب تاريخ الطبري تاريخ الرسل والملوك وصلة تاريخ الطبري – ذكر الخبر عن وفاه عمر جلد4 صفحہ 193 مکتبہ شاملہ)

اس کا جواب یہ ہے کہ امام طبری نے یہ قول وہی ابن سعد کا ہی ذکر کیا ہے  لیکن یہ روایت انتہائی کمزور ہے۔

چوتھا قول ابو معشر کا 26 ذی الحجہ کا ذکر کیا ہے: وحدثني أحمد بْن ثابت الرازي، قال: حَدَّثَنَا محدث، عن إسحاق ابن عيسى، عن أبي معشر، قال: قتل عمر يوم الأربعاء لأربع ليال بقين  من ذي الحجة تمام سنة ثلاث وعشرين، وكانت خلافته عشر سنين وستة أشهر وأربعة أيام، ثم بويع عثمان بْن عفان.

ترجمہ کا خلاصہ: حضرت عمر کو 26 ذوالحجہ کو بدھ کے دن قتل کیا گیا اور ان کی خلافت  کی مدت 10 سال چھ مہینے چار دن تھی پھر حضرت عثمان کی بیعت کی گئی۔

(كتاب تاريخ الطبري تاريخ الرسل والملوك وصلة تاريخ الطبري – ذكر الخبر عن وفاه عمر جلد4 صفحہ 193 مکتبہ شاملہ)

اس کا جواب یہ ہے کہ اس کو احمد بن ثابت الرازی کے طریق سے ہے روایت کیا گیا ہے جو  کہ کذاب تھا۔

پانچواں قول ہشام بن محمد کا 27 ذی الحجہ کا ذکر کیا ہے: وحدثت عن هشام بْن مُحَمَّد، قال: قتل عمر لثلاث ليال بقين من ذي الحجة سنة ثلاث وعشرين وكانت خلافته عشر سنين وستة أشهر وأربعة أيام ولم يزل يذكر الله إلى أن توفي ليلة الأربعاء لثلاث  بقين من ذي الحجة سنة ثلاث وعشرين،

ترجمہ کا خلاصہ : حضرت عمر کو 27 ذوالحجہ کو قتل کیا گیا اور ان کی خلافت کی مدت 10 سال چھ مہینے چار دن تھی اور آپ اللہ کا ذکر کرتے ہوئے بدھ کی رات 27 ذوالحجہ کو انتقال فرماگئے۔

(كتاب تاريخ الطبري تاريخ الرسل والملوك وصلة تاريخ الطبري – ذكر الخبر عن وفاه عمر جلد4 صفحہ 193 مکتبہ شاملہ)

اس کا جواب یہ ہے کہ یہ روایت  بلا سند اور منقطع ہے جو نہایت ہی کمزور ہے۔

اسی طرح تاریخ ابن خلدون کے حوالے سے بھی اعتراض کیا جاتا ہے کہ اس میں بھی شھادت کی تاریخ یکم محرم الحرام نہیں ہے جیسا کہ: قَالَ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِعُثْمَانَ بْنِ مُحَمَّدٍ الأَخْنَسِيِّ فَقَالَ: مَا أَرَاكَ إِلا قَدْ وَهِلْتَ. تُوُفِّيَ عُمَرُ لأَرْبَعِ لَيَالٍ بَقِينَ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ

 ترجمہ کا خلاصہ: عثمان اخنسی نے کہا کہ میری رائے کے مطابق حضرت عمر رضی اللہ عنہ کیوفات 26 ذوالحجہ کو ہوئی

(كتاب تاريخ ابن خلدون – مقتل عمر وأمر الشورى وبيعة عثمان رضي الله عنه – جلد 2 صفحہ 569 المكتبة الشاملة الحديثة)

اس کا جواب یہ ہے کہ ابن خلدون نے اگرچہ 27 ذی الحجہ کا بتایا ہے مگر بلا سند ہے اور اس  کا مضمون تقریبا وہی ہے جو تاریخ طبری کا پہلا قول ہے جس کی سند نہایت کمزور ہے۔

اسی طرح البدایہ النھایہ تاریخ ابن کثیر کے حوالے سے یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اس میں بھی  یکم ؐمحرم الحرام کو شھادت کا ذکر نہیں ہے

اس کا جواب یہ ہے کہ ابن کثیر نے پہلا قول یہ ذکر کیا ہے:  قَالَ الْوَاقِدِيُّ: حَدَّثَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: طُعِنَ عُمَرُ يَوْمَ الْأَرْبِعَاءِ لِأَرْبَعِ لَيَالٍ بَقِينَ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ  سَنَةَ ثَلَاثٍ وَعِشْرِينَ، وَدُفِنَ يَوْمَ الْأَحَدِ صَبَاحَ هِلَالِ الْمُحَرَّمِ سَنَةَ أَرْبَعٍ وَعِشْرِينَ

ترجمہ کا خلاصہ : حضرت عمر کو بدھ کے دن 26 ذوالحجہ کو حملہ کر کے زخمی کیا گیا  اور یکم محرم الحرام کو دفن کیا گیا

اس قول کے بعد مزید مختلف اقوال ذکر فرمانے کے بعد آخر میں فرمایا: وَالْقَوْلُ الْأَوَّلُ هُوَ الْأَشْهَرُ، وَاللَّهُ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى أَعْلَمُ

یعنی پہلا قول یکم محرم الحرام والا زیادہ مشہور ہے

(كتاب البداية والنهاية ط هجر – صفة عمر بن الخطاب رضي الله عنه – المكتبة الشاملة الحديثة جلد 10 صفحہ 190 تاریخ ابن کثیر)

واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل و ﷺ

کتبہ   محمد وقاص عطاری

نظر ثانی  ابو محمد مفتی انس رضا قادری حفظہ اللہ تعالی

07 محرم الحرام 1443 ہجری،16 اگست 2021