مولوی یاسین رافضی کا باغ فدک کے متعلق غلط فہمی پھیلانا
کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ یاسین رافضی جو خود کو سنی عالم کہتا ہے لیکن شیعوں کے عقائد کا پرچار کرتا ہے، اس کا ایک ویڈیو کلپ شیعہ لوگ بہت وائرل کر رہے ہیں ، جس میں وہ کہہ رہا ہے کہ ہماری بخاری شریف میں موجود ہے کہ باغ فدک کا مطالبہ جب حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے کیا اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے جب فرمان مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سنایا کہ انبیاء کا مال وراثت نہیں ہوتا بلکہ صدقہ ہوتا ہے تو حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا ناراض ہوئیں اور تعلق ختم کر لیا اور جب تک حیات رہیں انہوں نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کلام تک نہیں کیا۔ پھر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو وصیت کی کہ رات کو میرا جنازہ پڑھا دینا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا ۔ بخاری میں ہے کہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رات کو نماز جنازہ پڑھا دی اور حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو اطلاع تک نہ دی۔ جن کتب میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نما ز جنازہ پڑھانا لکھا ہے وہ بخاری کے علاوہ دیگر نچلے درجے کی تاریخی کتب ہے جو دمشق میں تیار ہوئی ہیں۔ آپ اس حوالے سے کیا کہتے ہیں؟
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق وا لصواب
آج کل یاسین رافضی، ظہور فیضی اور دیگر نام نہاد سنی شیعوں کی کتابیں کاپی پیسٹ کر کے محقق بنے پھرتے ہیں اور عوام اہل سنت کے عقائد کو کمزور کرنے اور شیعوں کو خوش کر کے مال و شہرت پانے کی حرص میں ہیں۔ ان کے ساتھ جعلی پیر بھی مل گئے ہیں جنہوں نے ساری زندگی عوام کے چندے کھائے مال و عزت پائی اور بدلے میں عوام کے عقائد خراب کرتے ہوئے شیعوں کی گود میں جا بیٹھے۔
یہ نام نہاد محقق کبھی افضلیت کے مسئلہ پر اور کبھی ناموس صحابہ پر کلام کرتے ہوئے ویڈیو کلپ میں پیچھے کتابیں ظاہر کر کے یہ باور کرواتے ہیں کہ انہوں نے بہت تحقیق کی ہے حالانکہ یہ انتہائی نااہل اور کم علم ہوتے ہیں۔ جو اعتراضات یہ آج شیعوں سے لے کر کرتے ہیں، ان سب کے جوابات اکابرین اہل سنت نے کئی صدیوں پہلے اپنی کتب میں دے دیے ہیں۔
موجودہ مسئلہ میں بھی یاسین رافضی نے جو کہا ہے کہ فدک والے مسئلہ میں بس بخاری ہی قابل قبول ہے دوسری کتاب کا اعتبار نہیں بلکہ وہ معاذ اللہ کتب دمشق میں گھڑی گئی ہیں ،یہ اس کی جہالت و بُغض ہے۔ بخاری شریف ہو یا کوئی بھی کتاب، ہر ایک میں موجود حدیث کو اصول ِ حدیث پر پرکھا جاتا ہے اور محدثین اس پر رہنمائی کرتے ہیں۔ باغ فدک کے متعلق بخاری ہی میں کئی روایات ہیں اور کئی جگہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا ناراض ہونا بالکل موجود نہیں بلکہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تائید بھی موجود ہے۔ بخاری کے پانچ مقامات پر اس روایت میں موجود راوی زہری ہیں مگر ناراضی کا ذکر نہیں کرتے۔ صرف امام زہری کے شاگرد صالح ان الفاظ کو ذکر کرتے ہیں ۔ لہذا صالح کے مقابلے میں دیگر راویوں کی بات قابل قبول ہے اور صالح کی روایت بالمعنی ہے۔ یہ راوی کا فہم ہے جو کہ درست نہیں ہے۔ محدثین اس متعلق ادراج کی صراحت کی ہے۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جیسی عظیم ہستی سے بعید ہے کہ وہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سن کر انکار کریں اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ سے ناراض ہو جائیں۔ محدثین نے حدیث کے اس اضافی حصے کی بھی تشریح کی ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا فرمان رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سن کر حضرت ابوبکر صدیق سے بات نہ کرنا اس طور پر تھا کہ آپ نے پھر کبھی فدک کا مطالبہ نہ کیا نہ یہ کہ ناراضی کے سبب بات چیت نہیں کی۔
پھر روایات سے ثابت ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس واقعہ کے بعد آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر گئے اور اہل بیت سے اپنی عقیدت کا اظہار کیا اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو مطمئن کیا۔
جہاں تک حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے نماز جنازہ کا تعلق ہے تو یاسین رافضی نے جس انداز سے گفتگو کی ہے اور یہ ظاہر کیا ہے کہ بخاری شریف ہی میں ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنے جنازے میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شامل نہ کرنے کی وصیت کی تھی، یہ بالکل باطل ہے۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نماز جنازہ کس نے پڑھایا، اس بارے میں مختلف روایات ہیں:
بعض میں ہے کہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نماز جنازہ پڑھائی ،بعض میں حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر ہے اور کئی روایات میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا امامت کروانا ثابت ہے۔
جن روایات میں حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا رات کو نماز جنازہ پڑھا کر دفن کرنا ثابت ہے اس میں بھی وجہ یہ نہ تھی کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ شامل نہ ہو جائیں بلکہ رات کو دفن کرنے کی وصیت اس لیے تھی کہ کسی نامحرم کا کی نظر جنازہ پر نہ پڑے یعنی بطور پردہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے رات کو دفن ہونے کی وصیت کی تھی۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پیغام نہ دینا اس لیے تھا کہ آپ نے سمجھا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان کی زوجہ نے بتا دیا ہو گا کیونکہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو غسل دینے والی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زوجہ تھیں۔
یاسین رافضی اور دیگر شیعہ جو بخاری کی اس حدیث کو لے کر اہل سنت پر طعن کر رہے ہیں، تو اگر اس مدرج حدیث کو بھی لیا جائے تو اہل تشیع کے عقائد کی گرفت ہے، کیونکہ اس حدیث کے آخر میں صراحت ہے کہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی تدفین کے بعد اپنی خوشی سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیعت کی تھی۔ جبکہ اہل تشیع تو یہ کہانی سناتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیعت کروانے میں معاذ اللہ سختی و ظلم کیا تھا اور حضرت فاطمہ اور ان کے شہزادے کو شہید کیا تھا۔
نیز مسئلہ فدک میں اہل بیت کے ائمہ کرام ہی سے صراحت ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فیصلہ بالکل درست تھا اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے جو روایت امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے آبا و اجداد سے روایت کی ہے اس میں صراحت ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی نماز جنازہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پڑھائی تھی اور اس کی کئی اسناد ہیں، جن کو ضعیف کہہ کر رافضی اور نیم رافضی ٹولے کی جان نہیں چھوٹے گی۔
صحیح البخاری میں ہے:
”حدثنا أبو اليمان، أخبرنا شعيب، عن الزهري، قال: حدثني عروة بن الزبير، عن عائشة، أن فاطمة، عليها السلام، أرسلت إلى أبي بكر تسأله ميراثها من النبي صلى الله عليه و سلم فيما أفاء الله على رسوله صلى الله عليه وسلم، تطلب صدقة النبي صلى الله عليه و سلم التي بالمدينة وفدك، وما بقي من خمس خيبر،فقال أبو بكر: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: «لا نورث ما تركنا فهو صدقة، إنما يأكل آل محمد من هذا المال، يعني مال الله، ليس لهم أن يزيدوا على المأكل»، وإني والله لا أغير شيئا من صدقات النبي صلى الله عليه و سلم التي كانت عليها في عهد النبي صلى الله عليه وسلم، ولأعملن فيها بما عمل فيها رسول الله صلى الله عليه وسلم، فتشهد علي ثم قال: إنا قد عرفنا يا أبا بكر فضيلتك، وذكر قرابتهم من رسول الله صلى الله عليه و سلم وحقهم، فتكلم أبو بكر فقال: والذي نفسي بيده، لقرابة رسول الله صلى الله عليه و سلم أحب إلي أن أصل من قرابتي“
ترجمہ: ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا، کہا ہم سے شعیب نے بیان کیا، انہوں نے زہری کی سند سے، کہا: مجھ سے عروہ بن الزبیر نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے بیان کیا کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس یہ سوال کرنے کے لیے بھیجا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی میراث کا مطالبہ کر رہی ہیں اس مال میں جو اللہ عزوجل نے اپنے رسول کو دیا ، اور حضور علیہ السلام کا صدقہ جو مدینہ پاک اور فدک میں ہے، اور جو خیبر کے خمس میں سے بچا ہے ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ”ہم وارث نہیں بناتے، جو کچھ پیچھے چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہے۔ بیشک آل محمد صلی اللہ علیہ و سلم صرف اس رقم سے کھاتے ہیں، یعنی اللہ کا مال، ان کیلئے جائز نہیں کہ کھانے میں اضافہ کریں ۔ اور خدا کی قسم میں نبی کے صدقے میں کوئی تبدیلی نہیں کرتا۔ اور میں اس میں وہی کروں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس میں کیا تھا۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس پر گواہی دی اور پھر فرمایا: اے ابوبکر ہم نے آپ کی فضیلت اور اہل بیت کی قرابت اور حق کو پہچان لیا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی قرابت مجھے اپنی اصل قرابت سے زیادہ محبوب ہے۔
(صحیح البخاری، باب مناقب قرابة رسول الله صلى الله عليه وسلم، ومنقبة فاطمة عليها السلام بنت النبي صلى الله عليه وسلم،جلد5،صفحہ20،دارطوق النجاۃ،مصر)
صحیح البخاری میں ہے:
”حدثنا عبد اللہ بن محمد حدثنا ھشام اخبرنا معمر عن الزھری عن عروہ عن عائشہ ان فاطمہ والعباس اتیا ابا بکر یلتمسان میراثھما من رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم وھما حینئذ یطلبان ارضیھما من فدک وسھمھما من خیبر فقال لھما ابوبکر سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یقول لانورث ماترکنا صدقہ انما یاکل آل محمد من ھذا المال قال ابو بکر واللہ لاارع امرا رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یصنعہ فیہ الا صنعہ قال فھجرتہ فاطمہ فلم تکلمہ حتی ماتت“
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ترکہ میں سے اپنی میراث مانگنے آئے اور وہ دونوں اس وقت فدک کی زمین اور خیبر کی زمین سے اپنا حصہ وصول کرنا چاہتے تھے ۔تو ان دونوں سے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے سنا ہے کہ ہمارا کوئی وارث نہ ہو گا اور جو کچھ ہم نے چھوڑا وہ صدقہ ہے صرف اس مال سے آل محمد صلی اللہ علیہ و سلم کھائیں گے ۔حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: خدا کی قسم جس کام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو کرتے دیکھا ہے اس کو نہیں چھوڑوں گا چنانچہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بات چیت کرنا چھوڑ دی یہاں تک کہ وفات پا گئیں ۔
(صحیح البخاری ، باب قول النبي صلى الله عليه وسلم: «لا نورث ما تركنا صدقة» ، جلد 8، صفحہ149، دارطوق النجاۃ،مصر)
عمدۃ القاری میں ہے: ”قوله: (وعاشت) إلى آخره، مدرج“ یعنی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب تک حیات رہیں اور حضرت ابوبکر صدیق سے بات نہ کی یہ یہ آخر تک روایت مدرج (یعنی راوی کا اپنا کلام ہے)ہے۔
(عمدۃ القاری،جلد17،صفحہ258، دار إحياء التراث العربي، بيروت)
فتح الباری میں ہے:” وأشار البيهقي إلى أن في قوله وعاشت إلخ إدراجا“ ترجمہ:امام بیہقی نے اشارہ فرمایا ہےکہ جب تک حیات رہیں آخر تک روایت میں اندراج ہے۔
(فتح الباري شرح صحيح البخاري،جلد7،صفحہ494،دار المعرفة – بيروت)
فتح الباری میں ہے:
”فھجرتہ فاطمہ فلم تکلم حتی ماتت ووقع عند شبہ من وجہ اخر عن معمر فلم تکلم فی ذلک المال“
ترجمہ:پس جس میں ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملاقات ترک کردی اور بات چیت نہیں کی اور جس معمر والی حدیث میں یہ شبہ ہے تو اس سے مراد یہ ہے کہ اس مال وراثت کے بارے میں گفتگو نہ کی۔
(فتح الباری ، جلد 6 ، صفحہ 164 ، مطبوعہ بیروت)
نزھہ القاری میں ہے:
”حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ حدیث (لا نورث ) سنائی کہ ہم انبیاء کرام کا کوئی وارث نہیں ہوتا ہم جو مال چھوڑ جاتے ہیں وہ صدقہ ہے صحیح اور معتبر روایات کے مطابق حضرت سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ حدیث سن کر سکوت فرمایا اس کی تردید میں کچھ نہیں فرمایا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ انہوں نے اس حدیث کی صحت کو تسلیم فرمالیا۔“
آگے فرماتے ہیں:
”اہل سنت کی روایات کے مطابق یہ سن کر کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ فرمایا ہے کہ ہم انبیاء کا کوئی وارث نہیں ہوتا ہم جو چھوڑیں وہ صدقہ ہے نہ تو حضرت سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا نے کچھ فرمایا نہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اور نہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے۔“
(نزھہ القاری شرح صحیح البخاری ، کتاب الجہاد ،جلد 4 ، صفحہ 189 188 ،حدیث 1660 ، فرید بک اسٹال)
مزیدنزھہ القاری شرح صحیح البخاری میں ہے:
”فوجدت فاطمہ اور دوسری روایت میں فغضبت فاطمہ ہے۔ یہ حقیقت میں راوی میں راوی کا استخراج ہے واقعہ یہ ہے کہ حضرت سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فطری طور پر گوشہ نشین تھیں لوگوں سے کم ملتی جلتی تھیں احادیث کے پورے دفتر دیکھ ڈالے حضرت سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی سیرت پاک میں لوگوں سے ملنے جلنے کے واقعات کم ملتے ہیں ۔“
(نزھہ القاری شرح صحیح البخاری ، کتاب الجہاد ،جلد 4 ، صفحہ 227 ،حدیث 1660 ، فرید بک اسٹال)
طبقات ابن سعد اورسنن الکبری البیہقی میں ہے :
” عن الشعبی قال لما مرضت فاطمة أتاها أبوبکر الصدیق فاستأذن علیها فقال علي: یا فاطمة! هٰذا أبوبکر یستأذن علیك فقالت أتحب أن أذن له قال نعم فأذنت له فدخل علیها یترضاها وقال والله ماترکت الدار والمال والأهل والعشیرة إلا ابتغاء مرضاة الله ومرضاة رسوله ومرضاتکم أهل البیت ثم ترضاها حتی رضیت ۔ هٰذا مرسل حسن بإسناد صحیح “
ترجمہ : جب حضرت فاطمۃ الزہراء بیمار ہوئیں تو حضرت ابوبکر صدیق ان کی تیمار داری کے لیے تشریف لائے اور اندر آنے کی اجازت طلب فرمائی۔ حضرت علی نے حضر ت فاطمہ سےکہا کہ ابوبکر صدیق اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں ۔ حضرت فاطمہ نے کہا کہ اگر ان کا آنا آپ کو پسند ہے تو ٹھیک، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ان کا اندر آنا مجھے گوارا ہے۔اجازت ہوئی، ابوبکر صدیق اندر تشریف لائے اور حضرت فاطمہ کی رضا مندی حاصل کرنے کی خاطر گفتگو شروع کرتے ہوئے حضرت ابوبکر نے فرمایا : اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رضا مندی کی خاطر اور آپ (اہل بیت) کی خوشنودی کے لیے ہم نے گھر بار مال و دولت، خویش و اقربا کو چھوڑا۔ اس طرح کی گفتگو کاسلسلہ شروع رکھا حتیٰ کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے راضی ہوگئیں ۔یہ روایت مرسل حسن صحیح سند کے ساتھ ہے۔
(السنن الکبریٰ للبیہقی جلد 6 ، صفحہ 151، مطبوعہ بیروت)
ریاض النضرۃ میں ہے :
”عن الأوزاعی قال: فخرج أبوبکر حتی قام علىٰ بابها في یوم حار ثم قال لا أبرح مکاني حتی ترضی عني بنت رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فدخل علیها علي فأقسم علیها لترضی فرضیت“
ترجمہ:امام اوزاعی سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق ایک گرم دن میں حضر ت فاطمہ کے دروازہ پر پہنچے او رفرمایا : جب تک رسول زادی مجھ سے راضی نہ ہوگی یہاں سے نہیں ہٹوں گا ۔ حتیٰ کہ حضرت علی حضر ت فاطمہ کے پاس آئے اور ان کو قسم دی کہ آپ ابوبکر سے راضی ہوجائیں تو اس پر حضرت فاطمہ راضی ہوگئیں ۔
( ریاض النضرۃ فی مناقب العشر المبشرۃ جلد 1، 157 156 ، مطبوعہ موسسہ العلمیہ)
بدایہ والنھایہ میں ہے:
”فلما مرضت جاءها الصدیق فدخل علیها فجعل یترضاها فرضِیت “
ترجمہ : جب فاطمہ رضی اللہ عنہابیمار پڑگئیں تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ان کےپاس تشریف لائے اور ان کو راضی کرنے لگے حتیٰ کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا ان سے راضی ہوگئیں۔
(البدایۃ والنھایۃ: جلد 6، صفحہ 38 ،مکتبہ المعارف بیروت)
رافضیوں کی معتبر کتاب حق الیقین میں ہے کہ حضرت سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فدک کا مطالبہ کیا تو انہوں نے حدیث رسول”لا نورث ما ترکناہ صدقۃ“(ہم انبیاء علیہم السلام کسی کو اپنا وارث نہیں بناتے ،جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے) سنانے کے بعد بہت معذرت کی اور فرمایا: ”اموال و احوال خود از تو مضائقہ نمی آں چہ خواہی بگیر تو سیدہ امت پدر خودی و شجرہ طیبہ از برائے فرزنداں خود انکار فضل تو کسے نمی تواند گرد و تو حکم تو نافذ ست در اموال من امادر اموال مسلماناں مخالف گفتیہ پدر تو نمی توانم کرد“
ترجمہ:میرے جملہ اموال و احوال میں آپ کو اختیار ہے آپ بلا روک ٹوک لے سکتی ہیں اور آپ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم کی امت کی سردار ہیں اور آپ کے فرزندوں کیلئے شجرہ مبارکہ میں آپ کی فضیلت کا کوئی انکار نہیں کرسکتا اور آپ کا حکم میرے تمام مالوں میں نافذ ہے۔ لیکن مسلمانوں کے مالوں میں آپ کے والد ماجد سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم کے فرمان کی مخالفت میں نہیں کر سکتا ۔
(حق الیقین ،فصل مطاعن غصب کنندگان حق امیر المؤمنین،صفحہ327،انتشارات سرور)
صحیح البخاری میں ہے : ”دفنها زوجها علی ليلا ولم يؤذن بها أبا بكر ‘‘ یعنی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کو ان کے شوہر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے رات کو ہی دفن کر دیا اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ان کی وفات کی اطلاع نہ دی۔
(صحیح البخاری ، کتاب المغازی، باب غزوۃ خیبر، جلد05،صفحہ139 ، بیروت)
عمدۃ القاری میں ہے: ” قوله: (ليلا) أي: في الليل، وذلك بوصية منها لإرادة الزيادة في التستر“ ترجمہ:حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا رات میں دفن کرنے کی وصیت سے آپ کا ارادہ پردہ میں اضافہ کے سبب تھا۔
(عمدۃ القاری،جلد17،صفحہ259، دار إحياء التراث العربي ،بيروت)
تحفۃ اثنا عشریہ میں شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
”بعض روایات میں یہ ہے کہ دوسرے دن جناب شیخین(حضرت ابوبکر صدیق و عمر فارو ق رضی اللہ تعالیٰ عنہما ) اور دیگر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین ،حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاں تعزیت کے لیے گئے تو سب ہی نے شکایت کی ہم کو آپ نے خبر کیوں نہ کی کہ ہم جنازہ میں شرکت کا ثواب حاصل کرتے،توحضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جوابا فرمایا: حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا وصیت کرچکی تھیں کہ جب میں دنیا سے جاؤں تو مجھے رات میں دفن کرنا تاکہ میرے جنازہ پر کسی نامحرم کی نظر نہ پڑے۔لہذا میں نے ان کی وصیت پر عمل کیا ہے۔“
(تحفہ اثنا عشریہ،صفحہ549،دارالاشاعت،کراچی)
فتح الباری میں ہے:
” دفنت ليلا وكان ذلك بوصية منها لإرادة الزيادة في التستر ولعله لم يعلم أبا بكر بموتها لأنه ظن أن ذلك لا يخفى عنه وليس في الخبر ما يدل على أن أبا بكر لم يعلم بموتها ولا صلى عليها“
ترجمہ:رات کو حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو دفن کیا گیا اور آپ نے اس بارے میں وصیت کی تھی کہ اس میں زیادہ پردہ ہے ۔ آپ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس لیے اطلاع نہ دی کہ آپ نے گمان کیا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو معلوم ہوگا کہ یہ خبر ان سے مخفی نہ ہوگی ۔یہ روایت اس پر دلیل نہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اطلاع نہ دی گئی اور نہ ہی آپ نے ان کی نماز جنازہ پڑھی۔
(فتح الباري شرح صحيح البخاري،جلد7،صفحہ494،دار المعرفة ،بيروت)
مصنف عبد الرزاق و سنن کبری للبیہقی و مستدرک للحاکم میں ہے (واللفظ للاول): ’’عن أم جعفر بنت محمد، عن جدتها أسماء بنت عميس قالت: أوصت فاطمة إذا ماتت أن لا يغسلها إلا أنا وعلی قالت: «فغسلتها أنا و علی»‘‘ ترجمہ :(حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو زوجہ)حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے ،وہ فرماتی ہیں کہ : سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے وصیت کی تھی کہ جب ان کا انتقال ہو جائے،تو میں اور حضرت علی انہیں غسل دیں، پس میں نےاور حضرت علی نے انہیں غسل دیا۔
(مصنف عبد الرزاق، جلد 03، صفحہ 409، مطبوعہ بیروت)
امام قسطلانی فرماتے ہیں:
” وقد صحح ابن حبان وغيره من حديث أبي سعيد الخدري رضي الله عنه أن عليا بايع أبا بكر في أول الأمر، وأما ما في مسلم عن الزهري أن رجلا قال له: لم يبايع علي أبا بكر حتى ماتت فاطمة رضي الله عنها. قال: ولا أحد من بني هاشم فقد ضعفه البيهقي بأن الزهري لم يسنده، وأن الرواية الموصولة عن أبي سعيد أصح وجمع غيره بأنه مبايعة بيعة ثانية مؤكدة للأولى لإزالة ما كان وقع بسبب الميراث، وحينئذ فيحمل قول الزهري لم يبايعه في في تلك الأيام على إرادة الملازمة له والحضور عنده، فإن ذلك يوهم من لا يعرف باطن الأمر أنه بسبب عدم الرضا بخلافته فأطلق من أطلق ذلك وبسبب ذلك يظهر علي المبايعة بعد موت فاطمة لإزالة هذه الشبهة قاله في الفتح.“
خلاصہ کلام:ابن حبان اور دیگر محدثین نے حدیث ابی سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت سے یہ تصحیح کی کہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ابوبکر صدیق کہ بیعت پہلے ہی واقعہ میں کرلی تھی ۔باقی جو زہری سے مسلم شریف میں ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے وصال تک بیعت نہ کی یہ بنو ہاشم کے کسی فرد سے ثابت نہیں اور امام بیہقی نے اس کو ضعیف کہا ہے کہ زہر ی نے اس کو سند کے ساتھ بیا ن نہیں کیا۔ حضرت علی المرتضیٰ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے وصال کے بعد دوسری مرتبہ بیعت پہلی کی تاکید کے طور پر شبہات دور کرنے کے سبب کی ۔
( إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري،جلد6،صفحہ375،المطبعة الكبرى الأميرية، مصر)
الریاض النضرۃ میں ہے :
” عن جعفر بن محمد عن أبيه عن جده علی بن الحسين قال: ماتت فاطمة بين المغرب والعشاء، فحضرها أبو بكر وعمر وعثمان والزبير وعبد الرحمن بن عوف،فلما وضعت ليصلى عليها قال علی رضی اللہ عنه: تقدم يا أبابكر قال: وأنت شاهد يا أبا الحسن؟ قال: نعم تقدم فواللہ لا يصلی عليها غيرك، فصلى عليها أبو بكر رضی اللہ عنهم أجمعين ودفنت ليلًا. خرجه البصری وخرجه ابن السمان في الموافقة ‘‘
یعنی امام جعفر اپنے والد(امام باقر ) سے وہ ان کے داداحضرت علی بن حسین رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں ،انہوں نے فرمایا : مغرب و عشا کے درمیان حضرت فاطمہ کی وفات ہوئی، تو حضرت ابو بکر و عمر و عثمان و زبیر و عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہم اجمعین آئے جب جنازہ نماز پڑھنے کے لیے رکھا گیا، تو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نےکہا: اے ابو بکر آپ آگے بڑھیں، تو صدیق اکبر نے کہا آپ موجود ہیں، آپ کے ہوتے ہوئے میں آگے بڑھوں ؟ تو حضرت علی نے کہا : جی ہاں اللہ کی قسم حضرت فاطمہ کا جنازہ آپ کے علاوہ کوئی اور نہیں پڑھائے گا ، تو حضرت ابو بکر صدیق نے نماز جنازہ پڑھائی اورحضرت فاطمہ کو رات میں ہی دفن کیا گیا ، اسے امام بصری نے اور ابن سمان نے موافقہ میں نقل کیا ۔
(الریاض النضرہ،جلد 01، صفحہ 176،دارالکتب العلمیہ، بیروت، تاریخ الخمیس1/278 الریاض النضرۃ1/176سمط النجوم1/536، الكامل في ضعفاء الرجال5/422,423، ذخیرۃ الحفاظ روایت نمبر2492)
طبقات ابن سعد میں ہے:
’’ عن إبراهيم قال: صلى أبو بكر الصديق على فاطمة بنت رسول اللہ صلى اللہ عليه و سلم فكبر عليها أربعا ‘‘
یعنی حضرت ابراہیم نخعی سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے سیدہ فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیہ و سلم کی نماز جنازہ پڑھائی اور چارتکبیرات کہیں ۔
اسی میں حضرت امام شعبی علیہ الرحمۃ سے منقول ہے :
’’ عن الشعبی قال: صلى عليها أبو بكر رضی اللہ عنه وعنها ‘‘
یعنی : حضرت ابو بکررضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کی نماز جنازہ پڑھائی ۔
(طبقات ابن سعد ، جلد 08، صفحہ 24، دار الکتب العلمیہ ، بیروت)
محقق علی الاطلاق شیخ عبد الحق محدث دہلوی علیہ رحمۃ اللہ القوی مدارج النبوۃ میں فرماتے ہیں :
’’ایک قول یہ ہے کہ آ پ کی جنازہ کی نماز حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے پڑھائی تھی ۔ ۔۔۔ لیکن روضۃ الاحباب وغیرہ کتب میں مذکور اور روایات سے بھی پتہ چلتا ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ حاضر ہوئے تھے اور انہوں نے ہی جنازہ کی نماز بھی پڑھائی تھی ،علاوہ ان کے حضرت عثمان بن عفان ، عبد الرحمن بن عوف اور زبیر بن العوام رضی اللہ تعالی عنہم بھی اس وقت موجود تھے۔‘‘
( مدارج النبوۃ(مترجم)، جلد02،صفحہ686، مطبوعہ لاھور)
مراہ المناجیح میں ہے :
مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں:’’(حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا)کو جنابِ علی کرم الله وجہہ نے غسل دیا آپ نے ہی نماز پڑھی اور شب میں دفن کیا۔مگر صحیح یہ ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق نے آپ کا جنازہ پڑھایا۔‘‘
(مرآۃ المناجیح ، جلد 08، صفحہ 456،نعیمی کتب خانہ ، گجرات)
دلائل النبوۃ للبیہقی میں ہے:
” أخبرنا محمد بن عبد الله الحافظ، قال: أخبرنا أبو عبد الله الصفار، قال: حدثنا إسماعيل بن إسحاق القاضي، قال: حدثنا نصر بن علي، قال: حدثنا ابن داود عن فضيل بن مرزوق، قال: زيد بن علي بن الحسين ابن علي، أما أنا فلو كنت مكان أبي بكر لحكمت بمثل ما حكم به أبو بكر في فدك“
ترجمہ:امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پوتے حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اگر میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جگہ ہوتا تو فدک کے متعلق وہی فیصلہ کرتا جو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی ٰ عنہ نے کیا تھا۔
(دلائل النبوة ومعرفة أحوال صاحب الشريعة، باب ما جاء في تركة رسول الله صلى الله عليه وسلم،جلد7،صفحہ281،دار الكتب العلمية، بيروت)
شیعوں کی معتبر کتاب شرح نہج البلاغہ میں ابن ابی حدید رافضی لکھتا ہے:
”عن کثیر النوال قال: قلت لابی جعفر محمد بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جعلنی اللہ فداک! ارایت ابابکر و عمر ھل ظلماکم من حقکم شیئا او قال ذھبا من حقکم بشیء؟ فقال لا ، والذی انزل القرآن علی عبدہ لیکون للعالمین نذیرا ماظلمنا من حقنا مثقال حبۃ من خردل ، قلت جعلت فداک افاتو لاھما؟قال:نعم ویحک ! تولھما فی الدنیا والآخرۃ وما اصابک ففی عنقی“
ترجمہ:کثیر النوال سے مروی ہے کہ وہ کہتا ہے کہ میں نے ابوجعفر محمد بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے عرض کیا: اللہ عزوجل مجھے آپ پر قربان کرے۔کیا آپ کا خیال ہے کہ ابوبکر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) اور عمر(رضی اللہ تعالیٰ عنہ)نے آپ کا حق روک کر آپ پر ظلم کیا ہے؟ یا ان الفاظ میں کہا کہ آپ کا کچھ حق تلف کیا ہے؟ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ہرگز نہیں، اس ذات کی قسم جس نے اپنے اس بندے پر قرآن نازل کیا جو سارے جہانوں کے لیے نذیر(ڈرانے والے)ہیں،ہم پر ایک رائی کے دانے برابر بھی ظلم نہیں کیا گیا۔ میں نے کہا: قربان جاؤں کیا میں بھی ان دونوں(حضرت ابوبکر صدیق و عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہما)سے محبت رکھوں؟حضرت ابوجعفر فرمانے لگے:ہاں تیرا ستیاناس !تو ان دونوں سے محبت رکھ،پھر اگر کوئی تکلیف تجھے پہنچے تو وہ میرے ذمے ہے۔
(شرح نہج البلاغۃ،الفصل الاول ،فیما ورد من الاخبار و السیر المنقولۃ من افواہ اہل الحدیث و کتبھم،جلد17،صفحہ326، دارالکتاب الغربی، بغداد)
واللہ اعلم عزوجل و رسولہ اعلم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم
کتبـــــــــــــــــــــــــــہ
ابو احمد مفتی محمد انس رضا قادری
13 رجب المرجب 1445 ھ / 25 جنوری 2024 ء