وکالت کے پیشے کا حکم
سوال: وکالت کا پیشہ کیسا ہے شریعت کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں ؟
User Idارشد خان:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب
وکالت کا پیشہ فی نفسہ جائز ہے جبکہ کسی کی ناحق طرف داری، جھوٹ، دھوکا دہی، خلافِ شریعت فیصلہ کروانے، ظالم کو مظلوم اور مظلوم کو ظالم بنانے، ناحق کسی کا حق دبانے وغیرہ ناجائز کاموں سے بچتے ہوئے کام کرے اور وکیل شرعی تقاضوں کے مطابق مقدمہ لڑنے کے معاہدے کی اجرت بھی لے سکتا ہے۔ امام سرخسی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں: ”اذا وکل الرجل بالخصومۃ فی شئ فھو جائز لانہ یملک المباشرۃ بنفسہ فیملک ھو صکہ الی غیرہ لیقوم فیہ مقامہ وقد یحتاج لذلک اما لقلۃ ھدایتہ او لصیانۃ نفسہ عن ذلک الابتذال فی مجلس الخصومۃ وقد جری الرسم علی التوکیل علی ابواب القضاء من لدن رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم الی یومنا ھذا من غیر نکیر منکر وزجر زاجر“ ترجمہ: جب کوئی شخص کسی جھگڑے میں وکیل بنائے تو یہ جائز ہے کیونکہ وہ خود یہ کام کرسکتا ہے تو کسی اور سے کروانے کا اختیار بھی رکھتا ہے تاکہ دوسرا اس کے قائم مقام ہو جائے، بسا اوقات وکیل بنانے کی ضرورت اس لئے بھی ہوتی ہے کہ مؤکل کو پوری سمجھ نہیں ہوتی یا کورٹ میں ذلت سے بچنا مقصود ہوتا ہے۔ بہرحال فیصلوں میں وکیل بنانے کا جواز نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم کے زمانۂ مبارکہ سے آج تک بغیر کسی انکار کے رائج ہے۔
(مبسوط سرخسی،ج19، ص6)
واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کتبـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــہ
انتظار حسین مدنی کشمیری عفی عنہ
8ربیع الاول 5144 ھ26 ستمبر 2023 ء