جمعہ کی اذان کے متعلق اہم مسائل

کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ ہم لاہور کی شاہ عالم مارکیٹ میں تجارت کرتے ہیں، جمعہ کے متعلق چند مسائل میں شرعی حکم درکار ہے:۔

                (1)  جمعہ کی پہلی اذان جو ساڑھے بارہ بجے کے قریب ہوتی ہے کیا اس کے بعد کاروبار کرنا ناجائز وحرام ہوجاتا ہے؟

                (2)  کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ ایک دوکان میں کئی لوگ کام کرتے ہیں،سب کام کرتے رہیں لیکن ہر کوئی متفرق اوقات میں متفرق مساجد میں جاکر جمعہ پڑھتاجائے؟

                (3)  بعض ایسی مساجد ہیں جہاں جمعہ ڈھائی ،تین بجے ہوتا ہے اور پہلی اذان ساڑھے بارہ بجے ہوجاتی ہے،اب کیا اتنی دیر کاروبار بند رکھے رہیں؟

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الوہاب اللہم ہدایۃالحق والصواب

(1) زوال کے بعد جو پہلی اذان تقریبا ساڑھے بارہ بجے ہوتی ہے اس وقت سے کاروبار کرنا ناجائز و حرام ہوجاتا ہے۔قرآن پاک میں ہے

 {یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ إِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلَاۃِ مِن یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا إِلَی ذِکْرِ اللَّٰہِ وَذَرُوا الْبَیْعَ ذَلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ إِن کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ}

ترجمہ کنزالایمان:اے ایمان والو جب نماز کی اذان ہو جمعہ کے دن تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو، یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو۔  (سورۃ الجمعہ، سورت نمبر62،آیت نمبر9)

درمنثور کی حدیث پاک ہے

’’عن ابن عباس قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حرمت التجارۃ یوم الجمعۃ ما بین الأذان الأول إلی الإِقامۃ إلی انصراف الإِمام ، لأن اللہ یقول ( یا أیہا الذین آمنوا إذا نودی للصلاۃ من یوم الجمعۃ فاسعوا إلی ذکر ) إلی ( وذروا البیع )‘‘

ترجمہ:حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جمہ والے دن اذانِ اول سے لے کراقامت ہونے ،امام کے پھرنے (یعنی نماز کے ختم ہونے )تک تجارت حرام ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے ’’اے ایمان والو جب نماز کی اذان ہو جمعہ کے دن تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو۔‘‘ (درمنثور،فی التفسیر ،سورۃ الجمعہ، سورت نمبر62،آیت نمبر9 ،جلد8،صفحہ163،دار الفکر ،بیروت)

 حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں اذانِ اول سے مراد وہ اذان ہوتی تھی جوامام کے منبر پر بیٹھنے کے بعدپڑھی جاتی تھی ۔حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے دور میں ایک اور اذان شروع کی جو زوال کے بعد دی جاتی تھی وہ آج بھی رائج ہے اور اسی اذان کے بعد کاروبار کرنا حرام ہے۔ ردالمحتار میں ہے

’’وحاصلہ أن السعی نفسہ فرض والواجب کونہ فی وقت الأذان الأول۔۔۔ أحدث عثمان الاذان الثانی علی الزوراء حیث کثر الناس والاصح أنہ الاول باعتبار الوقت، وہو الذی یکون علی المنارۃ بعد الزوال‘‘

ترجمہ: حاصل یہ ہے کہ بے شک سعی بالذات فرض وواجب ہے جو اذان اول کے وقت سے ہوتی ہے۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے دوسری اذان زوراء پر دینا شروع کیا جب لوگوں کی کثرت ہوئی اور اصح اذان اول ہے جو زوال کے بعد منارہ پر ہوتی ہے ۔     (ردالمحتار،کتاب الصلوٰۃ،باب الجمعۃ،جلد2،صفحہ161، دار الفکر،بیروت )

(2)  اس مارکیٹ میں اگر متفرق اوقات میں جمعہ کی پہلی اذان ہوتی ہے تو جو جہاں جمعہ پڑھتا ہے اس مسجد کی اذان کا اعتبار کرے گا۔ ردالمحتار میں ہے

’’وأن یجیب بقدمہ اتفاقا فی الأذان الأول یوم الجمعۃ لوجوب السعی بالنص وفی التتارخانیۃ إنما یجیب أذان مسجدہ وسأل ظہیر الدین عمن سمعہ فی آن من جہات ماذا یجب علیہ ؟ قال إجابۃ أذان مسجدہ بالفعل‘‘

یعنی سعی کابطور نص واجب ہونے کے سبب جمعہ والے دن اذانِ اول کا جواب بالقدم دیا جائے گا اتفاقا اور تتارخانیہ میں ہے کہ اپنی مسجد(جہاں نماز پڑھتا ہے) کا جواب دیا جائے گا اور سوال کیا ظہیر الدین سے جو ایک وقت میں کافی اذانیں سنے      ا س پر کس کا جواب دینا واجب ہے ؟تو آپ نے جواب دیا کہ اس پر اپنی مسجد کی اذان کا جواب بالفعل یعنی مسجد کی طرف چل کر دیناہے۔ (درمختار, ج02،ص87،مطبوعہ:مکتبہ رشدیہ کوئٹہ )

                لیکن ہمارے یہاں سب مساجد میں تقریبا ساڑھے بارہ بجے ہی اذان اول ہوتی ہے۔ اس لئے ایک دوکان میں اگرچہ کافی لوگ متفرق مساجد میں جاکر نماز پڑھنے والے ہو ں سب کے لئے کاروبار کرنا ناجائز ہوجائے گا۔ اس کا ایک حل پیار محبت سے یہ نکالا جائے کہ ائمہ مساجد سے عرض کی جائے کہ آپ  پہلی اذان ذرا لیٹ پڑھا کریں یعنی ایک مسجد میں اگر جمعہ دو بجے ہوتا ہے تو وہ اذان اول ڈیڑ ھ بجے تقریر سے پہلے دیں تاکہ لوگ حرام فعل سے بچ جائیں۔

(3)  حکم یہی ہے کہ جمعہ جس مرضی وقت میں ہو جیسے ہی پہلی اذان ہوگی کاروبار حرام ہوجائے گا اور ان اوقات میں سوائے جمعہ کی تیاری کے کوئی بھی فعل نہیں کیا جاسکتا۔ان اوقات میں کاروبارکرنے سے برکت نہیں ہوگی بلکہ یہ وبال ہوگا۔ فیض القدیر میں ہے

’’قال الحرانی وکلما عملہ الانسان فی أوقات الصلاۃ من حین ینادی المؤذن إلی أن تنفصل جماعۃ مسجدہ من صلاتہم لا برکۃ فیہ بل یکون وبالا‘‘

یعنی امام حرانی رحمۃ اللہ علیہ نے کہاانسان کے تمام عمل اوقاتِ نماز یعنی مؤذن کے اذان کہنے سے لے مسجد کی نماز ختم ہونے تک میں کوئی برکت نہیں بلکہ یہ وبال ہیں۔                   (فیض القدیر، جز 1،حدیث374،صفحہ327،دارالکتب العلمیۃ بیروت)

ہر مسلمان کو کوشش کرنے چاہئے کہ پہلی اذان ہوتے ہیں جمعہ کی تیاری کرے اور جتنی جلدی ہوسکے جمعہ کے لئے آجائے۔ احادیث میں جلد ی جمعہ کے لئے آنے پر بہت فضیلتیں ہیں۔ترمذی، ابودائود، نسائی ، ابن ماجہ میں حصرت اوس ابن اوس سے مروی ہے فرمایا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   نے :

جو جمعہ کے دن نہلائے اور نہائے اور جلدی آئے اور جلدی کام کرے اور پیدل آئے سوار نہ ہو اور امام سے قریب بیٹھے اور کان لگا کر سنے اور کوئی بے ہودگی نہ کرے تو ’’کَانَ لَہُ بِکُلِّ خُطْوَۃٍ یَخْطُوہَا أَجْرُ سَنَۃٍ صِیَامُہَا وَقِیَامُہَا‘‘اسے ہر قدم کے عوض ایک سال کے عمل روزوں اور شبِ بیداریوں کا ثواب ملے گا۔ (جامع ترمذی ،باب ما جاء فی فضل الغسل یوم الجمعۃ،جلد2،صفحہ387،مصطفی البابی الحلبی،مصر)

     واللہ اعلم ورسولہ  عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم

کتبـــــــــــــــــــــــــہ

   ابواحمدمفتی  محمد انس رضا قادری

16 رمضان المبارک1444؁ھ07 مارچ 2023؁ء

اپنا تبصرہ بھیجیں