اذان سے پہلے درود پڑھنا

اذان سے پہلے درود پڑھنے کا کیا جواز ہے؟

الجواب بعون الملک الوهاب اللهم هداية الحق والصواب

اذان سے پہلے درود پاک پڑھنا نہ صرف جائز بلکہ مستحب  اور باعث ثواب ہے اور یہ جواز و استحباب قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔

  اللہ پاک نے قرآن پاک میں درود پاک پڑھنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے: اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۵۶)  پ ٢٢،الأحزاب:٥٦)ترجمۂ کنزالایمان: بیشک اللّٰہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے(نبی)پر اے ایمان والو، ان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔

اس آیت مبارکہ میں اللہ پاک نے  کسی وقت کو خاص نہیں فرمایا کہ اس وقت پڑھو اور اس وقت نہ پڑھو،اور ایسے احکام جن میں کوئی قید نہ ہو ان کے بارے میں اصول یہ ہے کہ اگر وہ کام اچھا ہے تو جہاں، جس وقت اور جس انداز میں بھی وہ کام کیا جائے گا،اچھا ہی رہے گا،سوائے یہ کہ کسی خاص صورت میں وہ کام کرنے کی ممانعت شریعت میں آ جائے۔

چنانچہ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: عموم واطلاق سے اِستدلال زمانہ صحابہ کرام رضی اﷲ تعالی عنہم سے آج تک علماء میں شائع وذائع،یعنی جب ایک بات کوشرع نے محمود فرمایا،توجہاں اورجس وقت اور جس طرح وہ بات واقع ہوگی،ہمیشہ محمودرہے گی،تاوقتیکہ کسی صورت ِخاصہ کی مُمانعت خاص شرع سےنہ آجائے۔ مثلاً:مطلق ذکرِالٰہی کی خوبی قرآن وحدیث سے ثابت،توجب کبھی،کہیں،کسی طورپرخدا کی یاد کی جائے گی،بہترہی ہوگی،ہرہرخصوصیت کاثبوت شرع سے ضرورنہیں،مگرپاخانہ (ٹوائلٹ)میں بیٹھ کرزبان سے یادِالٰہی کرناممنوع،کہ اس خاص صورت کی برائی شرع سے ثابت۔ غرض جس مطلق کی خوبی معلوم،اس کی خاص خاص صورتوں کی جداجداخوبی ثابت کرنا ضرورنہیں، کہ آخروہ صورتیں اسی مطلق کی توہیں،جس کی بھلائی ثابت ہوچکی،بلکہ کسی خصوصیت کی برائی ماننایہ محتاج دلیل ہے۔

مسلم الثبوت میں ہے:’’شاع وذاع احتجاجھم سلفاً وخلفاً بالعمومات من غیرنکیر‘‘متقدمین اورمتاخرین علماء کاعمومات سے استدلال کرنا ،بغیرکسی انکار کے معروف اوررائج ہے۔ پس بحکم  ِاطلاق جس جس طریقہ سے ان کی یاد کی جائے گی،حسن ومحمود ہی رہے گی اورمجلس ِمیلاد وصلوٰۃ بعدِاذان وغیرہما کسی خاص طریقے کے لئے ثبوتِ مطلق کے سوا کسی نئے ثبوت کی ہرگزحاجت نہ ہوگی، ہاں جوکوئی ان طُرُق کوممنوع کہے،وہ ان کی خاص ممانعت ثابت کرے۔‘‘      

(فتاوی رضویہ،ج26،ص528تا530،مطبوعہ،رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

حدیث پاک میں ہر اچھے  کام سے پہلے رب تعالی کی حمد اور درودِ پاک پڑھنے کی ترغیب دلائی گئی ہے ۔ اذان بھی یقیناً ایک اچھا  فعل ہے، لہذا اس سے پہلے بھی درود و سلام پڑھنا اسی حدیث پر عمل ہے ۔

 چنانچہ تیسیر شرح جامع صغیر میں ہے:’’کل امر ذی بال لا یبدا فیہ بحمد اللہ والصلاۃ علی،فھو اقطع،ابتر،ممحوق من کل برکۃ‘‘ترجمہ:ہر وہ ذی مرتبہ  کام ،جس کی ابتداء اللہ تعالی کی حمد اور مجھ پر درود ِ پاک بھیج کر نہ کی جائے  ،تو وہ ادھورا، نامکمل اور ہر طرح کی برکت سے خالی ہے ۔

(تیسیر شرح جامع صغیر ،ج2،ص211،مطبوعہ،مکتبہ امام شافعی ،ریاض)

فتاویٰ شامی میں ہے:(قوله ومستحبة في كل أوقات الإمكان) أي حيث لا مانع. ونص العلماء على استحبابها في مواضع: يوم الجمعة وليلتها، وزيد يوم السبت والأحد والخميس، لما ورد في كل من الثلاثة، وعند الصباح والمساء، وعند دخول المسجد والخروج منه، وعند زيارة قبره الشريف – صلى الله عليه وسلم – وعند الصفا والمروة، وفي خطبة الجمعة وغيرها، وعقب إجابة المؤذن، وعند الإقامة، وأول الدعاء وأوسطه وآخره، وعقب دعاء القنوت، وعند الفراغ من التلبية، وعند الاجتماع والافتراق، وعند الوضوء، وعند طنين الأذن، وعند نسيان الشيء۔  اذان دینا تمام ممکنہ اوقات میں مستحب ہے،یعنی جب کوئی مانع نہ ہو۔علمائے کرام نے ان مواضع پر اذان پڑھنا مستحب ہونے کی صراحت فرمائی ہے:جمعے کے دن اور شب جمعہ میں ،ان میں ہفتہ،پیر اور جمعرات کا دن بھی شامل کیا گیا ہے،کیونکہ ان تینوں ایام کے بارے میں روایات آئی ہیں،صبح اور شام کے وقت،مسجد میں داخل ہوتے اور نکلتے وقت،نبی اکرم  صلى الله عليه وسلم کی قبر مبارک کی زیارت کے وقت،صفا مروہ کے پاس،جمعے اور اس کے علاوہ دیگر خطبوں میں،موذن کی اذان کا جواب دینے کے بعد،اقامت کے وقت،دعا کے آغاز،درمیان اور آخر میں،دعائے قنوت کے بعد،تلبیہ سے فارغ ہونے کے بعد،اکٹھے ہونے اور جدا ہونے کے وقت،وضو کرتے وقت،کان بجتے وقت اور کوئی چیز بھول جانے پر۔

      ( ردالمحتار،جلد1،صفحہ518)

حضرت علامہ مفتی خلیل خان برکاتی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”اذان سے پہلے درود شریف پڑھنا جائز ہے بلکہ مستحب و باعث و برکت و ثواب ہے۔“

(فتاویٰ خلیلیہ جلد اول ص 211)

فتاویٰ مرکز تربیت افتا میں ہے:”قبل اذان و اقامت درود شریف پڑھنا جائز و مستحسن ہے،اس میں کوئی حرج نہیں۔“

(فتاویٰ مرکز تربیت افتا جلد اول ص160)

                                                                                               و  الله      اعلم عزوجل و رسولہ اعلم صلی اللہ علیہ وسلم                                   

کتبہ      

محمدایوب عطاری               

17 محرم الحرام1442 ھ/26 اگست 2021 ء

نظر ثانی  : محمد انس رضا قادری