عید کی نماز کےلئے کیا کیا سنتیں و آداب ہیں

عید کی نماز کےلئے کیا کیا سنتیں و آداب ہیں براہ کرم رہنمائی فرمائیں.

الجواب بعون الملک الوہاب ھدایۃ الحق والصواب

نماز عید کےلئے عید گاہ کی طرف جلد جانااور عید گاہ کی طرف پیدل جانااور نماز عید سے پہلے صدقۂ فطر ادا کرنا اورآتے جاتے ہوئے راستہ تبدیل کرنا اور نماز عید کی طرف جانے سے پہلے چند کھجوریں طاق عدد میں کھالینا,عید گاہ کو اطمینان و وقار اور نگاہ نیچی کئے ہوئے جانا اور خوشی کا اظہار کرنا آپس میں ایک دوسرے کو مبارک باد دینا اور عید الفطر کےلئے جاتے ہوئے آہستہ آواز میں تکبیر پڑھنا اور عید الاضحی کےلئے جاتے ہوئے بلند آواز سے تکبیر پڑھنا وغیرہ نماز عید کی سنتیں اور آداب میں سے ہیں.

” الصحیح البخاری” میں ہے

عن أنس بن مالك، قال: «كان رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يغدو يوم الفطر حتى يأكل تمرات» وقال مرجأ بن رجاء، حدثني عبيد الله، قال: حدثني أنس، عن النبي صلى الله عليه وسلم، «ويأكلهن وترا»

حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم عید الفطر کے دن(عید کےلئے) نہ جاتے  جب تک کچھ کھجوریں تناول نہ فرمالیتے.اور مرجأ بن رجاء نے فرمایا کہ مجھے عبیداللہ نے حدیث بیان فرمائی فرمایا کہ مجھے حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حدیث بیان فرمائی کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم طاق عدد کھجور کھاتے.

(بخاری ج1 کتاب الجمعۃ ابواب العیدین ص328 مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت)

” سنن ترمذی “میں ہے

عن علي، قال: «من السنة أن تخرج إلى العيد ماشيا، وأن تأكل شيئا قبل أن تخرج» هذا حديث حسن

حضرت علی کرم اللہ تعالی وجہہ الکرین سے مروی ہے فرمایا سنت یہ ہے کہ تو عید کےلئے پیدل چلتے ہوئے جائے اور یہ کہ جانے سے قبل کوئی چیز کھالے.

(سنن ترمذی ج2 ابواب العیدین ص410 مطبوعہ مصطفی البانی الحلبی مصر)

“فتاوی ہندیہ”میں عید کے مستحبات بیان کرتے ہیں فرماتے ہیں.

وَالِابْتِكَارُ وَهُوَ الْمُسَارَعَةُ إلَى الْمُصَلَّى وَأَدَاءُ صَدَقَةِ الْفِطْرِ قَبْلَ الصَّلَاةِ وَصَلَاةُ الْغَدَاةِ فِي مَسْجِدِ حَيِّهِ وَالْخُرُوجُ إلَى الْمُصَلَّى مَاشِيًا وَالرُّجُوعُ فِي طَرِيقٍ آخَرَ، كَذَا فِي الْقُنْيَةِ.

وَاسْتُحِبَّ فِي عِيدِ الْفِطْرِ أَنْ يَأْكُلَ قَبْلَ الْخُرُوجِ إلَى الْمُصَلَّى تُمَيْرَاتٍ ثَلَاثًا أَوْ خَمْسًا أَوْ سَبْعًا أَوْ أَقَلَّ أَوْ أَكْثَرَ بَعْدَ أَنْ يَكُونَ وِتْرًا وَإِلَّا مَا شَاءَ مِنْ أَيِّ حُلْوٍ كَانَ، كَذَا فِي الْعَيْنِيِّ شَرْحِ الْكَنْزِ.

وَيَنْبَغِي أَنْ يَخْرُجَ مَاشِيًا إلَى الْمُصَلَّى عَلَى السَّكِينَةِ وَالْوَقَارِ مَعَ غَضِّ الْبَصَرِ عَمَّا لَا يَنْبَغِي أَنْ يُبْصِرَ، كَذَا فِي الْمُضْمَرَاتِ.

وَيُكَبِّرُ فِي الطَّرِيقِ فِي الْأَضْحَى جَهْرًا يَقْطَعُهُ إذَا انْتَهَى إلَى الْمُصَلَّى وَفِي الْفِطْرِ الْمُخْتَارُ مِنْ مَذْهَبِهِ أَنَّهُ لَا يَجْهَرُ

(نماز عید کیلئے مستحب ہے کہ)عید گاہ کی طرف جلدی کرنا اورنماز عید سے پہلے صدقہ فطر ادا کرنا اور صبح کی نماز مسجد محلہ میں ادا کرنا اور عید گاہ کی طرف پیدل چل کے جانا اور دوسرے راستے سے واپس آنا ایسا ہی “القنیه”میں ہے اور عید الفطر میں مستحب ہے کہ عید گاہ کی طرف جانے سے پہلے تین پانچ یا سات کھجوریں کھائے یا کم یا زیادہ کھائے طاق عدد کھانے کے بعد اور اگر یہ نہ ہوں تو پھرجو میٹھی چیز چاہے کھالے ایسا ہی “عینی اور شرح کنز”میں ہے اور بہتر ہے کہ عید گاہ کو اطمینان و وقار اور نگاہ نیچی کئے ہوئے جائے ان چیزوں سے جن کا دیکھنا مناسب نہیں ہے. اور ایسا ہی “المضمرات” میں ہے.

اور عید الاضحی کیلئے جاتے ہوئے راستے میں بلند آواز سے تکبیر کہے اور جب عید گاہ پہنچ جائے تو اسے ختم کرے.اور عید الفطر میں مختار مذہب کے مطابق تکبیر کہنے میں جہر نہ کرے.

(الفتاوی الہندیہ ج1 کتاب الصلوۃ الباب السابع عشر في صلاة العيدين ص 150 مطبوعہ دارالفکر )

“بہار شریعت” میں ہے

(عید کے دن)صبح کی نماز مسجد محلّہ میں  پڑھنا عیدگاہ جلد چلا جانا نماز سے پہلے صدقۂ فطر ادا کرنا  عیدگاہ کو پیدل جانا دوسرے راستہ سے واپس آنا نماز کو جانے سے پیشتر چند کھجوریں  کھا لینا۔ تین، پانچ، سات یا کم و بیش مگر طاق ہوں ، کھجوریں  نہ ہوں  تو کوئی میٹھی چیز کھا لے، نماز سے پہلے کچھ نہ کھایا تو گنہگار نہ ہوا مگر عشا تک نہ کھایا تو عتاب کیا جائے گا خوشی ظاہر کرنا کثرت سے صدقہ دینا عیدگاہ کو اطمینان و وقار اور نیچی نگاہ کیے جانا آپس میں  مبارک دینا مستحب ہے

(بہار شریعت حصہ 4  عیدین کا بیان ص 785,786 مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)

واللہ تعالی اعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب

مجیب :عبدہ المذنب ابو معاویہ زاہد بشیر عطاری مدنی

اپنا تبصرہ بھیجیں