عیدین کی کل تکبیرات کتنی ہے احادیث سے ثابت کریں۔؟

کیا فرماتے ہیں علماء دیں مسئلہ ھذا کہ بارے میں کہ عیدین کی کل تکبیرات کتنی ہے احادیث سے ثابت کریں۔؟

بسم الله الرحمٰن الرحیم

الجواب بعون الملک الوهاب اللهم هدایة الحق والصواب

عیدین میں کل چھ زائد تکبیریں ہیں جو احادیث رسول سے ثابت ہیں

لیکن یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ نماز عید میں بحالت قیام تین تکبیریں اصلی ہیں یعنی تکبیرتحریمہ اور رکوع کی دو تکبیریں ،ان کو تکبیرات صلاتیہ بھی کہا جاتا ہے اور چھ زائد تکبیریں ہیں۔ بعض احادیث میں مجموعی تعداد نو کا ذکر ہے ،بعض میں پہلی رکعت میں پانچ کا اور دوسری رکعت میں چار کا ذکر ہے ،بعض میں چار چار تکبیروں کا ذکر ہے یعنی پہلی رکعت میں تکبیر تحریمہ سمیت قراءۃ کے پہلے چار تکبیریں ہیں اور رکوع والی تکبیر ان سے الگ قراۃ کے بعد ہے اور دوسری رکعت میں قراۃ کے بعد تکبیر رکوع سمیت چار تکبیریں ہیں۔حاصل سب کا ایک ہے کہ نماز عید میں بحالت قیام مجموعی طور پر نو تکبیریں ہیں ،تین تکبیرات صلاتیہ (یعنی تکبیر تحریمہ اور رکوع کی دو تکبیریں) اور چھ زائد تکبیریں ہیں

طحاوی شریف میں ہے

🔸 *ان القاسم اباعبد الرحمن حدثہ قال حدثنی بعض اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال صلی بنا النبی صلی اللہ علیہ وسلم یوم عید فکبر اربعا واربعا ثم اقبل علینابوجھہ حین انصرف فقال لا تنسوا کتکبیر الجنائز واشارباصابعہ وقبض ابہامہ۔

ابو عبد الرحمن قاسم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مجھے اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں سے بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے بتایا کہ ہمیں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عید پڑھائی۔ پس آپ نے چار چار تکبیریں کہیں پھر نماز سے فار غ ہو کر رخ انور ہماری طرف کر کے فرمایا بھول ناجانا عید کی تکبیریں جنازہ کی تکبیروں کی طرح چار ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انگوٹھا بند کر کے چار انگلیوں کے ساتھ اشارہ بھی فرمایا۔

كِتَابُ الزِّيَادَاتِ » بَابُ صَلاةِ الْعِيدَيْنِ كَيْفَ التَّكْبِيرُ فِيهَا …

طحاوی ج ٣ ص ۴٨٢ حامد اینڈ کمپنی لاہور

اخلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح

[نخب الافكار (العيني) -الصفحة أو الرقم: 16/440 ، السلسلة الصحيحة (الألباني) – الصفحة أو الرقم : 6/1259 : 2997]لحديث: 4820

ابو داود شریف کی روایت ہے

عن مکحول قال اخبرنی ابو عائشۃ جلیس لابی ھریرۃ ان سعید بن العاص سال ابا موسٰی الاشعری وحذیفۃبن الیمان کیف کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یکبر فی الاضحی والفطر فقال ابو موسٰی کان یکبر اربعا تکبیرۃ علی الجنائز فقال حذیفۃصدق فقال ابو موسی کذلک کنت اکبر فی البصرۃ حیث کنت علیھم قال ابو عائشۃ وانا حاضر سعید بن العاص۔*

حضرت ابو ہریرہ کے ہم نشین ابو عائشہ فرماتے ہیں کہ سعید بن العاص )گورنر کوفہ ( نےحضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اور حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عیدین میں تکبیریں کیسے کہتے تھے ؟ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز عیدین میں اس طرح تکبیریں کہتے تھے جیسے نماز جنازہ میں تکبیریں کہی جاتی ہیں (یعنی ہر رکعت میں چارچار ) حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس نے سچ کہا پھر حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے فرمایا جب میں بصرہ میں حاکم تھا تو اسی طرح تکبیریں کہتا تھا اور مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے ابو عائشہ فرماتے ہیں میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی یہ بات نہیں بھولا کہ چار تکبیریں ہیں تکبیرات جنازہ کی طرح۔

سنن أبي داود » كِتَاب الصَّلَاةِ » بَاب تَفْرِيعِ أَبْوَابِ الْجُمُعَةِ » بَاب

التَّكْبِيرِ فِي الْعِيدَيْنِ، رقم الحديث:١١۵٣]مکتبة المعارف للنشر والتواریخ الریاض

انٹرنیشنل نمبری کے مطابق ١١۵٣

خلاصة حكم المحدث: [حسن كما قال في المقدمة] تخريج مشكاة المصابيح (ابن حجر العسقلاني) – الصفحة أو الرقم: 2/121

مصنف عبدالرزاق میں ہے

عَنْ عَلْقَمَةَ ، وَالأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ ، قَالَ : كَانَ ابْنُ مَسْعُودٍ جَالِسًا ،

وَعِنْدَهُ حُذَيْفَةُ ، وَأَبُو مُوسَى الأَشْعَرِيُّ ، فَسَأَلَهُمَا سَعِيدُ بْنُ الْعَاصِ عَنِ التَّكْبِيرِ فِي الصَّلاةِ يَوْمَ الْفِطْرِ وَالأَضْحَى ، فَجَعَلَ هَذَا يَقُولُ : سَلْ هَذَا ، وَهَذَا يَقُولُ : سَلْ هَذَا ، فَقَالَ لَهُ حُذَيْفَةُ : سَلْ هَذَا ، لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، فَسَأَلَهُ ، فَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ ” يُكَبِّرُ أَرْبَعًا ، ثُمَّ يَقْرَأُ ، ثُمَّ يُكَبِّرُ فَيَرْكَعُ ، ثُمَّ يَقُومُ فِي الثَّانِيَةِ فَيَقْرَأُ ، ثُمَّ يُكَبِّرُ أَرْبَعًا بَعْدَ الْقِرَاءَةِ ” .

ترجمہ : علقمہ اور اسود بن یزید کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عبدالله بنِ مسعود بیٹھے ہوۓ تھے، ان کے پاس حضرت حذیفہ اور حضرت ابو موسیٰ بھی بیٹھے ہوئے تھے. تو ان سے حضرت سعید بن العاص نے عید الفطر اور عید الأضحى کے متعلق سوال کیا، حضرت ابو موسیٰ رضی الله عنہ نے کہا : ان (حضرت حذیفہ) سے پوچھو، پھر حضرت حذیفہ نے کہا : یہ مسئلہ حضرت عبدالله بنِ مسعود سے پوچھو، چناچہ انہوں نے پوچھا تو حضرت ابنِ مسعود نے فرمایا : نمازی چار تکبیریں (ایک تکبیرِ تحریمہ اور تین تکبیراتِ زائد کہے، پھر قرأت کرے، پھر تکبیر کہہ کر رکوع کرے، دوسری رکعت میں تکبیر کہے، پھر قرأت کرے، پھر قرأت کے بعد چار تکبیریں کہے. (تین تکبیراتِ زائد اور ایک تکبیر رکوع کے لئے)

5) [مصنف عبد الرزاق » كتاب صلاة العيدين » بَابُ التَّكْبِيرِ فِ

ي الصَّلاةِ يَوْمَ الْعِيدِرقم الحديث: 5528] المکتبة الاسلامی

خلاصة حكم المحدث: إسناده في غاية الصحة

6) [المحلى (ابن حزم) – الصفحة أو الرقم: 5/83

، السلسلة الصحيحة (الألباني) – الصفحة أو الرقم:6/1261

عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ: ” فِي الأُولَى خَمْسَ تَكْبِيرَاتٍ بِتَكْبِيرَةِ الرَّكْعَةِ ، وَبِتَكْبِيرَةِ الاسْتِفْتَاحِ ، وَفِي الرَّكْعَةِ الأُخْرَى أَرْبَعَةٌ بِتَكْبِيرَةِ الرَّكْعَةِ “

ترجمہ : حضرت عبدالله بن مسعود رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ نمازِ عید کی پہلی رکعت میں رکوع اور تحریمہ کی تکبیر کو ملاکر پانچ (٥) تکبیریں ہوتی ہیں اور دوسری رکعت میں رکوع والی تکبیر کو ملاکر چار (٤) تکبیریں بنتی ہیں.

[خلاصہ یہ کہ ہر رکعت میں زائد تکبیروں کی تعداد تین) ہے]

مصنف عبد الرزاق » كتاب صلاة العيدين » بَابُ التَّكْبِيرِ فِي الصَّلاةِ يَوْمَ الْعِيدِ , رقم الحديث:۵۵٢٦

المکتبة الاسلامی

حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مُجَالِدٌ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ : ” كَانَ عَبْدُ اللَّهِ يُعَلِّمُنَا التَّكْبِيرَ فِي الْعِيدَيْنِ ، تِسْعَ تَكْبِيرَاتٍ : خَمْسٌ فِي الْأُولَى ، وَأَرْبَعٌ فِي الْآخِرَةِ ، وَيُوَالِي بَيْنَ الْقِرَاءَتَيْنِ “.

ترجمہ: حضرت ابن مسعود سے روایت ہے کہ وہ عیدین (یعنی دونوں عیدوں) میں نو،نو (9،9) تکبیرات کہتے تھے: پہلی (رکعت) میں پانچ(5) تکبیریں ، اور دوسری (رکعت) میں چار(4) تکبیریں کہتے تھے۔

تشریح:

یعنی پہلی رکعت میں ایک تکبیرِ تحریمہ کع بعد تین(3) تکبیرات عید کی زائد اور ایک رکوع کی، کل پانچ ہوئیں۔ اور

دوسری رکعت میں تین(3) تکبیریں عید کی اور ایک رکوس کی، کل چار ہوئیں۔

مصنف ابن أبي شيبة » كتاب الصلاة » أبواب العيدين » في التَّكْبِيرِ فِي الْعِيدَيْنِ وَاخْتِلَافُهُمْ … رقم الحديث: 5554(5746)]

شرکة دارالقبلہ موسسة القران

واللہ اعلم و رسولہ اعلم عزوجل صلی اللہ علیہ والہ وسلم

مجیب ۔؛ مولانا فرمان رضا مدنی

اپنا تبصرہ بھیجیں