اگر نمازِ عید کی پہلی رکعت میں شامل نہ ہو سکے تو بعد میں اسے کیسے ادا کریں گے؟

سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر نمازِ عید کی پہلی رکعت میں شامل نہ ہو سکے تو بعد میں اسے کیسے ادا کریں گے؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملك الوھاب اللھم ھدایة الحق و الصواب

نمازِ عید کی اگر ایک رکعت رہ گئی تو اس کو پڑھنے کا درست طریقہ یہ ہے کہ امام کے سلام پھیرنے کے بعد جب اپنی ایک رکعت پڑھنے کھڑا ہوگا تو پہلے قراءت کرے گا پھر تکبیریں کہے گا فتوی اسی پر ہے لیکن اگر کسی نے اس کے خلاف کیا یعنی پہلے تکبیریں کہ لیں پھر قراءت کی تو نماز درست ہوجائے گی۔

کتاب المبسوط للسرخسی میں ہے:”و المسبوق برکعة فی العید اذا قام یقضی ما فاته بنی علی رای نفسه فی عدد التکبیرات و محلھا اذا کان رایه مخالفا لرای امامه لانه فیما یقضی کالمنفرد ان کان یری قول ابن مسعود رضی اللہ عنہ کما فعله الامام بدا بالقراۃ ثم بالتکبیر وبه اجاب فی الجامع و الزیادات و فی نوادر ابی سلیمان فی احد الموضعین و قال فی الموضع الاخر یبدأ بالتکبیر وھو القیاس لانه یقضی ما فاته فیقضیه کما فاته و لکنه استحسن فقال لو بدأ بالتکبیر کان موالیا بین التکبیرات فان فی الرکعة المؤداۃ مع الامام کانت البدأة بالقراءۃ و المولاات بین التکبیرات لم یقل بھا احد من الصحابة ولو بدأ بالقراۃ کان فعله موافقا لقول علی رضی اللہ عنہ ولان یفعل کما قال بعض الصحابة اولی من عکسه”ترجمہ: جس کی عید کی ایک رکعت رہ جائے تو جب وہ اپنی فوت شدہ پڑھنے کھڑا ہوگا تو تکبیرات کی تعداد اور محل میں اس کے مذہب کا اعتبار ہوگا جب کہ اس کا مذہب اس کے امام کی رائے کے خلاف ہو اس لئے کہ جب وہ اپنی فوت شدہ پڑھے گا تو منفرد کی طرح ہوگا اگر اس کا مذہب عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ والا ہے جیسا کہ اس کے امام نے کیا تو وہ پہلے قراءت کرے گا پھر تکبیریں کہے گا یہی جواب ایک مقام پر جامع اور زیادات اور نوادر میں دیا ہے اور دوسرے مقام پر کہا ہے کہ پہلے تکبیر کہے پھر قراءت کرے اور یہ قیاس ہے (پہلے تکبیر کہنے کی وجہ) اس لئے کہ وہ فوت شدہ کو ادا کر رہا ہے تو جیسے وہ فوت ہوئی ویسے ہی ادا کرے گا لیکن اس طریقے کو لازمی قرار نہیں دیا۔تو کہا کہ اگر پہلے تکبیر کہے گا تو یہ مسلسل تکبیرات کہنا ہوگا اس لئے کہ جو رکعت اس نے امام کے ساتھ ادا کی وہ بھی قراءت سے شروع ہوئی اور مسلسل تکبیرات ہونے کا قول صحابہ میں سے کسی کا نہیں اور اگر پہلے قراءت کرتا ہے تو اس کا یہ عمل حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قول کے مطابق ہوگا تو وہ کام کرنا جو کسی صحابی سے موافقت رکھتا ہو یہ اولی ہے اس سے کہ کسی سے بھی موافقت نہ رکھتا ہو۔(کتاب المبسوط للسرخسی،جلد 2، باب صلاۃ العیدین، صفحہ 41،دارالمعرفہ)

بدائع الصنائع میں ہے:”فَإِنْ أَدْرَكَهُ فِي الرَّكْعَةِ الثَّانِيَةِ كَبَّرَ لِلِافْتِتَاحِ، وَتَابَعَ إمَامَهُ فِي الرَّكْعَةِ الثَّانِيَةِ يَتْبَعُ فِيهَا رَأْيَ إمَامِهِ؛ لِمَا قُلْنَا فَإِذَا فَرَغَ الْإِمَامُ مِنْ صَلَاتِهِ يَقُومُ إلَى قَضَاءِ مَا سُبِقَ بِهِ، ثُمَّ إنْ كَانَ رَأْيُهُ يُخَالِفُ رَأْيَ الْإِمَامِ يَتْبَعُ رَأْيَ نَفْسِهِ؛ لِأَنَّهُ مُنْفَرِدٌ فِيمَا يَقْضِي، بِخِلَافِ اللَّاحِقِ؛ لِأَنَّهُ فِي الْحُكْمِ كَأَنَّهُ خَلْفُ الْإِمَامِ، وَإِنْ كَانَ رَأْيُهُ مُوَافِقًا لِرَأْيِ إمَامِهِ بِأَنْ كَانَ إمَامُهُ يَرَى رَأْيَ ابْنِ مَسْعُودٍ وَهُوَ كَذَلِكَ بَدَأَ بِالْقِرَاءَةِ، ثُمَّ بِالتَّكْبِيرَاتِ كَذَا ذَكَرَ فِي الْأَصْلِ وَالْجَامِعِ وَالزِّيَادَاتِ وَفِي نَوَادِرِ أَبِي سُلَيْمَانَ فِي أَحَدِ الْمَوْضِعَيْنِ، وَقَالَ فِي الْمَوْضِعِ الْآخَرِ يَبْدَأُ بِالتَّكْبِيرِ ثُمَّ بِالْقِرَاءَةِ وَمِنْ مَشَايِخِنَا مَنْ قَالَ مَا ذُكِرَ فِي الْأَصْلِ قَوْلُ مُحَمَّدٍ؛ لِأَنَّ عِنْدَهُ مَا يَقْضِي الْمَسْبُوقُ آخِرَ صَلَاتِهِ، وَعِنْدَنَا فِي الرَّكْعَةِ الثَّانِيَةِ يَقْرَأُ ثُمَّ يُكَبِّرُ وَمَا ذُكِرَ فِي النَّوَادِرِ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ وَأَبِي يُوسُفَ؛ لِأَنَّ عِنْدَهُمَا مَا يَقْضِيهِ الْمَسْبُوقُ أَوَّلَ صَلَاتِهِ، وَعِنْدَنَا فِي الرَّكْعَةِ الْأُولَى يُكَبِّرُ، ثُمَّ يَقْرَأُ وَمِنْهُمْ مَنْ قَالَ: لَا خِلَافَ فِي الْمَسْأَلَةِ بَيْنَ أَصْحَابِنَا، بَلْ فِيهَا اخْتِلَافُ الرِّوَايَتَيْنِ وَجْهُ رِوَايَةِ وَالنَّوَادِرِ مَا ذَكَرْنَا أَنَّ مَا يَقْضِيهِ الْمَسْبُوقُ أَوَّلَ صَلَاتِهِ؛ لِأَنَّهُ يَقْضِي مَا فَاتَهُ فَيَقْضِيهِ كَمَا فَاتَهُ، وَقَدْ فَاتَهُ عَلَى وَجْهٍ يُقَدِّمُ التَّكْبِيرَ فِيهِ عَلَى الْقِرَاءَةِ فَيَقْضِيهِ كَذَلِكَ، وَوَجْهُ رِوَايَةِ الْأَصْلِ: أَنَّ الْمَقْضِيَّ وَإِنْ كَانَ أَوَّلَ صَلَاتِهِ حَقِيقَةً وَلَكِنَّهُ الرَّكْعَةُ الثَّانِيَةُ صُورَةً وَفِيمَا أَدْرَكَ مَعَ الْإِمَامِ قَرَأَ، ثُمَّ كَبَّرَ؛ لِأَنَّهَا ثَانِيَةُ الْإِمَامِ فَلَوْ قَدَّمَ هَهُنَا مَا يَقْضِي أَدَّى ذَلِكَ إلَى الْمُوَالَاةِ بَيْنَ التَّكْبِيرَتَيْنِ، وَلَمْ يَقُلْ بِهِ أَحَدٌ مِنْ الصَّحَابَةِ فَلَا يَفْعَلُ كَذَلِكَ احْتِرَازًا عَنْ مُخَالَفَةِ الْإِجْمَاعِ بِصُورَةِ هَذَا الْفِعْلِ.وَلَوْ بَدَأَ بِالْقِرَاءَةِ لَكَانَ فِيهِ تَقْدِيمُ الْقِرَاءَةِ فِي الرَّكْعَتَيْنِ، لَكِنْ هَذَا مَذْهَبُ عَلِيٍّ – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ – وَلَا شَكَّ أَنَّ الْعَمَلَ بِمَا قَالَهُ أَحَدٌ مِنْ الصَّحَابَةِ أَوْلَى مِنْ الْعَمَلِ بِمَا لَمْ يَقُلْ بِهِ أَحَدٌ إذْ هُوَ بَاطِلٌ بِيَقِينٍ۔(بدائع الصنائع، جلد 2،کتاب الصلاۃ، فصل فی بیان قدر صلاۃ العید، صفحہ 248،دار الکتب العلمیة)

ترجمہ کا مفہوم اوپر بیان کردہ عبارت کے ترجمے جیسا ہی ہے۔

رد المحتار میں ہے:”(قَوْلُهُ لِئَلَّا يَتَوَالَى التَّكْبِيرُ) أَيْ لِأَنَّهُ إذَا كَبَّرَ قَبْلَ الْقِرَاءَةِ وَقَدْ كَبَّرَ مَعَ الْإِمَامِ بَعْدَ الْقِرَاءَةِ لَزِمَ تَوَالِي التَّكْبِيرَاتِ فِي الرَّكْعَتَيْنِ قَالَ فِي الْبَحْرِ وَلَمْ يَقُلْ بِهِ أَحَدٌ مِنْ الصَّحَابَةِ وَلَوْ بَدَأَ بِالْقِرَاءَةِ يَصِيرُ فِعْلُهُ مُوَافِقًا لِقَوْلِ عَلِيٍّ – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ – فَكَانَ أَوْلَى كَذَا فِي الْمُحِيطِ وَهُوَ مُخَصِّصٌ لِقَوْلِهِمْ: إنَّ الْمَسْبُوقَ يَقْضِي أَوَّلَ صَلَاتِهِ فِي حَقِّ الْأَذْكَارِ”ترجمہ: ترجمہ(صاحب در مختار کا قول کہ اس طرح مسلسل تکبیرات کا ہونا پایا جائے گا) یعنی اگر وہ قراءت سے پہلے تکبیرات کہتا ہے اور امام کے ساتھ قرات کے بعد بھی اس نے تکبیرات پڑھی ہیں تو اس صورت میں دونوں رکعتوں میں مسلسل تکبیرات پڑھنا پایا گیا۔بحر میں فرمایا کہ یہ عمل کسی صحابی نے نہیں فرمایا اور اگر مسبوق پہلے قراءت کرتا ہے تو یہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے

موافقت ہو جائے گی اور یہ بہتر ہے جیسا کہ محیط میں ہے ، تو یہ حکم فقہاء کے اس قول کہ”مسبوق پہلے اذکار والی نماز پڑھے گا” کو خاص کرنے والا ہو جائے گا۔

(ردالمحتار، کتاب الصلاۃ، جلد 3،صفحه 64،دار المعرفة)

مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:” نماز عیدین میں جس کی پہلی رکعت جاتی رہی وہ جب اس کو ادا کرے تو بہتر یہی ہے کہ پہلے قراءت کرے بعد میں تکبیرات کہے، کلیہ اس امر کو مقتضی نہیں کہ پہلے تکبیر کہی جائے۔ پہلی رکعت میں تکبیرات کا تقدم اس وجہ سے تھا کہ تکبیر تحریمہ سے اسکا الحاق بہ نسبت تکبیر رکوع کے اولی تھا۔ بحر الرائق میں ہے” في الركعة الأولى تخللت الزوائد بين تكبيرة الافتتاح

وتكبيرة الرکوع فوجب الضم الى احدهما والضم الى تكبيرة الافتتاح اولی

لانها سابقة وفي الركعة الثانية الأصل فيه تكبيرة الرکوع لا غيره فوجب الضم اليها

ضرورة كذا في المحيط” اس عبارت سے بھی یہی ثابت کہ بعد میں کہے کیونکہ مسبوق کی اس رکعت میں تکبیر افتتاح ہی نہیں دراصل اس رکعت میں کبیر رکوع ہے لہذا اسی کے ساتھ ضم کی جائے۔ جب قیاس اس امر کو مقتضی ہے کہ قرآت کے بعد کہی جائیں تو اس کے ترک کے لیے صحابہ کرام کا قول یا فعل در کار تھا اور جب یہ موجود نہیں بلکہ حضرت علی کرم اللہ تعالی و جہہ الکریم کا قول قیاس ہی کا مؤید ہے تو اس پر عمل کیا جائے گا اور علامہ شامی اور ائمہ کی عبارت کا مطلب واضح ہو گیا دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ دونوں رکعتوں کی قراءت میں موالات مندوب ہے عامہ متون میں ہے “ويوالي بين القرأتین” اور “موالات بين التكبرات وهو خلاف الاجماع” اسی وجہ سے

صاحب در مختار نے قراءت کو مقدم کرنے کی یہی وجہ لکھی۔

فتاوی امجدیه، جلد1، صفحه 179مکتبہ رضویہ، کراچی)

اس طریقے کے برعکس کرنے والے کی نماز کے درست ہونے کے بارے میں مراقی الفلاح میں ہے:”( فإن قدم التكبيرات) في الركعة الثانية (على القراءة جاز) لأن الخلاف في الأولوية لا الجواز وعدمه” ترجمہ: اگر دوسری رکعت میں تکبیرات کو قراءت پر مقدم کیا تو یہ جائز ہے ، اس لیے کہ اس مسئلہ میں اختلاف اولویت میں ہے نہ کہ جائز اور ناجائز ہونے میں۔

(مراقی الفلاح شرح نور الايضاح، باب احکام العیدین، صفحہ 273، مكتبة المدينه)

واللہ اعلم عزوجل و رسولہ اعلم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

کتبہ : ابو بنتین محمد فراز عطاری مدنی عفی عنہ بن محمد اسماعیل

اپنا تبصرہ بھیجیں