میں نے کل ایک مفتی صاحب کا بیان سنا تھا جس میں وہ کہہ رہے تھے کہ اگر کسی نے حرام کمائ کے پیسوں سے ثواب کی نیت سے صدقہ کیا تو وہ اسلام سے خارج ہو جائے گا.
میرا سوال یہ ہے کہ اگر کوئی کسی کو کہے کہ ایک دن کی جاب ہے جتنے بھی آرڈر ہوں گے پیسے فکس ملیں گے تو اگر کوئی جان بوجھ کے جھوٹ بول کے آرڈر نہ لے یا تھوڑے لے تو اس صورت میں وہ پیسے استعمال کرنا جائز ہے، اگر آرڈر چینج کر کے اپنی مرضی سے لے اپنی آسانی کے لئیے تب ان پیسوں کا کیا حکم ہے، اور اگر آرڈر اپنی مرضی سے تھوڑے لیے ہوں تب کیا حکم ہے.
کمپنی کا آنر فکس پیسے دیتا ہے لیکن آرڈر دینے والا کوئی اور ہے اور وہ آرڈر دیتا ہے یعنی Dispatcher(دینے والا) اور اگر جاب جھوٹ بول کے لی ہو یا کبھی کبھی جھوٹ بول کر آسانی والے آرڈر چن کر لیے ہوں اپنے لیے تو کیا حکم ہے، آگے کی سادی سٹوری بتائ ہے آپ کو آرڈر کی.
اور کبھی کبھی جہاں آرڈر پہنچانا ہو وہاں جا کر ان کے رولز کے خلاف کام کرے اور جھوٹ بول کے جلدی کام فنش کرے، ان سب کا بتا دیں..
ایسے پیسے کیا حرام کمائ میں آتے ہیں اور ان کا ثواب کی نیت سے صدقہ کرنا کیسا ہے؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ
اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
سوال میں پوچھی گئی باتوں کے تین حصے ہیں:
1 – ملازم کا آرڈر نہ لینا یا تھوڑے لینا یا جھوٹ بول کر اپنی مرضی کے آسان آرڈر لینا یا جہاں آرڈر پہنچانا ہے وہاں کمپنی کے رولز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کام جلدی فنش کرنا، اور مذکورہ طریقہ سے کمائے ہوئے پیسے کیا حرام کمائ ہے؟
2 – کیا بنیت ثواب مذکورہ حرام کمائ سے صدقہ کرنا کفر ہے ؟
3 – کمپنی کا آنر کوئی اور ہے لیکن آرڈر دینے والا کوئی اور( یعنی Dispatcher بھیجنے والا)
بالترتیب ان تینوں صورتوں کے جواب ملاحظہ فرمائیں
1 – ملازم کا جان بوجھ کر آرڈر نہ لینا یا کم لینا باقی وقت فارغ بیٹھے رہنا جائز نہیں، کیونکہ مذکورہ ملازم اجیرِ خاص یعنی خاص وقت میں خاص شخص کا ملازم ہے اور ایسے ملازم پر شرعاً لازم ہوتا ہے کہ وہ مستاجِر کے ساتھ کیے گئے معاہدے کے مطابق وقتِ اجارہ میں اچھے طریقے سے کام سر انجام دے، لہٰذا ایسے ملازم پر لازم ہے کہ وہ حکمِ شرعی پر عمل کرتے ہوئے مستاجِر کے ساتھ کیے گئے معاہدے کے مطابق عمل کرے اور جان بوجھ کر اس میں کسی قسم کی کوتاہی یا سستی کر کے مالک کا نقصان نہ کرے ، ورنہ گنہگار اور عذابِ نار کا حق دار ہو گا.
اور شرعاً اسے اتنے وقت کی تنخواہ لینا بھی حرام ہے جتنا وقت اس نے کام میں سستی کی یا جان بوجھ کر آرڈر نہ لیے، اسکی فقط اتنی ہی تنخواہ حلال ہو گی جتنا اس نے کام کیا اس سے زائد پیسے لینا اس کے لئے جائز نہیں، بلکہ اس پر لازم ہے کہ جتنا کام کیا اس سے جو بھی زیادہ ملے وہ اپنے استعمال میں ہر گز نہ لائے، مالک کو وآپس کرے اگر وہ نہ رہا ہو تو اس کے وارثوں کو دے ورنہ کسی مسلمان محتاج پر صدقہ کر دے ، اپنے استعمال میں لانا یا صدقہ نہ کرنا حرام ہے.
نیز ملازم کا کمپنی کے رولز کی خلاف ورزی کر کے کام جلدی فنش کرنا یا جھوٹ بول کر آسان آرڈر لینا بھی منع ہے کیونکہ اس میں دھوکہ دہی کے ساتھ ساتھ کمپنی کے نقصان کا پہلو بھی موجود ہے جبکہ آسان آرڈر لینے کی صورت میں دیگر ملازمین سے نا انصافی بھی ہے کہ ایک ملازم نے جھوٹ بول کر آسان آرڈر لے لیے اور دوسرے کے ذمہ مشکل آرڈر آ گئے
مسلمانوں کو حکم ہے کہ وہ آپس میں کیے گئے معاہدے کو پورا کریں ۔چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَوْفُوۡا بِالْعُقُوۡدِ﴾ ترجمہ: اے ایمان والو !تمام عہد پورے کیا کرو۔
(پارہ 6،سورۃ المائدہ، آیت1)
اس آیت کے تحت تفسیرِ خزائن العرفان میں ہے : (اس آیت میں) خطاب مومنین کو ہے ۔انہیں عقود کے وفا (پورا) کرنے کا حکم دیا گیا ہے، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ ان عقود سے مراد ایمان اور وہ عہد ہیں، جو حرام و حلال کے متعلق قرآن پاک میں لیے گئے، بعض مفسرین کا قول ہے کہ اس میں مومنین کے باہمی معاہدے مراد ہیں. ”
(تفسیرِ خزائن العرفان ، تحت ھذہ الاٰیۃ)
اجیرِ خاص کی تعریف کے بارے میں تنویر الابصار مع در مختار میں ہے: ’’الاجیر الخاص ویسمی اجیر وحد وھو من یعمل لواحد عملا مؤقتا بالتخصیص ویستحق الاجر بتسلیم نفسہ فی المدۃ وان لم یعمل کمن استؤجر شھرا للخدمۃ او شھرا لرعی الغنم المسمی باجر مسمی” ترجمہ:اجیر خاص کا دوسرا نام اجیرِ وحد بھی ہے اور اس سے مراد وہ شخص ہے، جو مقررہ وقت میں خاص طور پر کسی ایک کا کام کرے اور ایسا شخص مدتِ اجارہ میں تسلیمِ نفس کے ساتھ اجرت کا حق دار ہو گا،اگرچہ (مستاجِر کی طرف سے کام نہ ملنے کی صورت میں)کام نہ کرے۔جیسے کسی کو ایک ماہ تک خدمت یا معین بکریاں چَرانے کے لیے معین اجرت کے بدلے میں اجیر رکھا جائے(تو وہ اجیر ِخاص ہے) ۔
(تنویر الابصار مع در مختار ،ج6،ص69، دارالفکر،بیروت)
اجیرِ خا ص کا وقتِ اجارہ میں خدمتِ مفوضہ کے علاوہ کوئی اور کام کرنا ، جائز نہیں ۔چنانچہ درمختار میں ہے:’’وليس للخاص ان يعمل لغيره ولو عمل نقص من اجرته بقدر ما عمل‘‘ ترجمہ:اجیرِ خاص کاوقتِ اجارہ میں مستاجِر کے علاوہ کسی دوسرےکا کام کرنا، جائز نہیں اور اگر کر لیا،تو جتنی دیر اس کا کام کیا اس کے مطابق اس کی تنخواہ میں سے کمی کی جائے گی
(در مختار مع رد المحتار ،ج6،ص70،دار الفکر،بیروت)
اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں : ” جو جائز پابندیاں مشروط تھیں ان کا خلاف حرام ہے اور بکے ہوئے وقت میں اپنا کام کرنا بھی حرام ہے اور ناقص کام کر کے پوری تنخواہ لینا بھی حرام ہے.
(فتاوی رضویہ ، ج19 ،ص 521 ، رضا فاؤنڈیشن لاہور)
مزید ایک اور مقام پر فرماتے ہیں : ” کام کی تین حالتیں ہیں (1) سست (2) معتدل (3) نہایت تیز اگر مزدوری میں سستی کے ساتھ کام کرتا ہے گنہگار ہے اور اس پر پوری مزدوری لینی حرام ، اتنے کام کے لائق جتنی اجرت ہے لے ،اس سے جو کچھ زیادہ ملا مستاجر کو وآپس دے
(فتاوی رضویہ ، ج 19 ،ص 407 ،رضا فاؤنڈیشن لاہور)
فتاوی رضویہ میں ایک اور مقام پر ہے: ’’ اجیرِ خاص پر وقتِ مقررہ معہود میں تسلیمِ نفس لازم ہے اور اسی سے وہ اجرت کا مستحق ہوتا ہے ،اگرچہ کام نہ ہو ۔مثلا :مدرّس وقتِ معہود پر مہینہ بھر برابر حاضر رہا اور طالبِ علم کوئی نہ تھا کہ سبق پڑھتا ، مدرس کی تنخواہ واجب ہوگئی۔ ہاں اگر تسلیمِ نفس میں کمی کرے مثلا بلا رخصت چلا گیا یا رخصت سے زیادہ دن لگائے یا مدرسہ کا وقت چھ گھنٹے تھا، اس نے پانچ گھنٹے دئے یا حاضر تو آیا، لیکن وقتِ مقرر خدمتِ مفوضہ کے سوا اور کسی اپنے ذاتی کام، اگرچہ نماز نفل یا دوسرے شخص کے کاموں میں صرف کیا کہ اس سے بھی تسلیم منتقض ہو گئی ۔ یونہی اگر آتا اور خالی باتیں کرتا چلا جاتا ہے ،طلبہ حاضر ہیں اور پڑھاتا نہیں کہ اگرچہ اجرت کام کی نہیں، تسلیم نفس کی ہے، مگر یہ منع نفس ہے ،نہ کہ تسلیم ، بہر حال جس قدر تسلیم نفس میں کمی کی ہے، اتنی تنخواہ وضع ہو گی۔‘‘
(فتاوی رضویہ، ج19،ص506،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)
فتاوی رضویہ شریف میں ہے ” (جتنا کام کیا) اس سے جو کچھ زیادہ ملا مستاجر کو وآپس دے وہ نہ رہا ہو اس کے وارثوں کو دے، ان کا بھی پتا نہ چلے مسلمان محتاج پر تصدق کرے، اپنے صرف میں لانا یا غیر صدقہ میں صرف کرنا حرام ہے.
(فتاوی رضویہ ،ج 19 ، ص 407 ، رضا فاؤنڈیشن لاہور)
فتاوی امجدیہ میں کمپنی کے ملازم کا رولز کی خلاف ورزی کرنے کے متعلق ہے ” جب اس نے ملازمت کی تو تمام امور کا جو اس ملازمت سے متعلق ہیں عہد کر لیا، اور جو کام شرائط ملازمت کے خلاف کرے گا غدر ہو جائیگا، غدر کے معنی عہد توڑنے کے ہیں، بلاشبہ اس نے عہد کو توڑا پھر غدر کیوں نہ ہوا ”
(فتاوی امجدیہ ، جلد 4 ،ص 280)
2 – مذکورہ ملازم کا اپنی کمائی سے صدقہ کرنا کفر نہیں کیونکہ اس ملازم کی اتنے وقت کی تنخواہ ہی حرام ہے جتنا اس نے کام میں کوتاہی وغیرہ کی، تمام آمدنی حرام نہیں لہذا مکمل تنخواہ سے صدقہ کرنا کفر نہیں کیونکہ یہاں حلال و حرام مکس ہے چنانچہ در مختار میں ہے ” وفي شرح الوهبانية عن البزازية إنما يكفر إذا تصدق بالحرام القطعي، أما إذا أخذ من إنسان مائة ومن آخر مائة وخلطهما ثم تصدق لا يكفر لأنه ليس بحرام بعينه بالقطع لاستهلاكه بالخلط ” ترجمہ : اور شرح وہبانیہ میں بزازیہ کے حوالے سے ہے (حرام مال صدقہ کرنے سے) کفر تب ہوتا ہے جب یقینی حرام مال صدقہ کرے، بہرحال جب ایک انسان سے سو (روپے) لیے اور دوسرے سے بھی لیے اور ان دونوں کو مکس کر دیا پھر صدقہ کیا تو کافر نہ ہو گا کیونکہ یہ مال بعینہ یقینی حرام نہیں ، اسکی طرف سے مکس کر کے ہلاک کرنے کے سبب.
(الدر المختار وحاشية ابن عابدين، کتاب الزکوۃ ،292/2)
فتاوی امجدیہ میں ہے : “حرام و حلال دونوں جب مخلوط ہو جائیں کہ امتیاز باقی نہ رہے مثلاً اپنے روپیہ میں کسی دوسرے کا روپیہ ناجائز طور پر حاصل کر کے ملا دیا تو یہ استہلاک ہے اور استہلاک سے ملک حاصل ہو جاتی ہے، مگر اتنا تاوان اس پر شرعا لازم ہے”
(فتاوی امجدیہ ، جلد 4 ،ص 156-157)
فتاوی امجدیہ میں مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمتہ، حرام مال راہ خدا میں خرچ کرنے کے متعلق ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں : ظاہر یہ ہے کہ حرام مال کے خرچ کرنے پر امید ثواب رکھنا کفر ہے، مگر جو شخص سود کھاتا ہے اس کے متعلق یہ کیونکر کہا جا ئیگا کہ جو روپیہ اس نے زکوٰۃ میں دیا وہ سود اور حرام تھا ہو سکتا ہے کہ اس نے اپنا حلال روپیہ زکوٰۃ میں دیا ہو.
(فتاوی امجدیہ ، جلد 4 ، ص 290)
3 – اور جہاں تک تعلق ہے اس بات کا کہ کمپنی کا مالک کوئی اور ہے جبکہ ملازمین کا ذمہ دار یا ان کو کام دینے والا کوئی اور ہے تو اس صورت میں اس ذمہ دار یا آڈر دینے والے پر لازم ہے کہ کمپنی کے رولز کے مطابق اپنی ذمہ داری کو پورا کرے اور رولز کے مطابق ہی آرڈر دے، اگر کوئی ملازم اپنے کام میں کوتاہی، سستی یا خیانت وغیرہ کرتا ہے تو فوراً مالک کو بتائے ورنہ گنہگار اور عذاب نار کا حقدار ہو گا.
امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں : “مراقب (یعنی سپر وائزر) یا مقررہ ذمہ دار تمام مزدوروں کی حسب استطاعت نگرانی کرے، وقت اور کام میں کوتاہی اور سستیاں کرنے والوں کی مکمل کارکردگی کمپنی یا ادارے کے متعلقہ افسر تک پہنچائے، مراقب اگر ہمدردی یا مروت یا کسی بھی سبب سے جان بوجھ کر پردہ ڈالے گا تو خائن و گنہگار اور عذاب نار کا حقدار ہو گا.
مذہبی یا سماجی ادرے کے مقررہ ذمہ داران و مفتیشین اگر ادارے کے ملازمین کی کوتاہیوں اور غیر قانونی چھٹیوں سے واقف ہونے کے باوجود آنکھ آڑے کان کریں (یعنی جان بوجھ کر انجان بنیں) گے اور اس وجہ سے ان ملازمین کو وقف کی رقم سے تنخواہ دی جائے گی تو لینے والوں کے ساتھ متعلقہ ذمہ دار بھی خائن و گنہگار اور عذاب نار کے حقدار ہوں گے.
(حلال طریقے سے کمانے کی پچاس مدنی پھول، ص 10،11 ،مکتبۃ المدینہ)
(والله تعالى اعلم بالصواب)
کتبہ : ابو الحسن حافظ محمد حق نواز مدنی