اپنا نام محی الدین، شمس الدین وغیرہ رکھنا

سوال : اپنا نام محی الدین، شمس الدین وغیرہ رکھنا کیسا ہے؟

الجواب بعون الملک الوھاب اللّھم ھدایۃ الحق و الصواب

اپنا نام شمس الدین، محی الدین وغیرہ رکھنا ممنوع ہے کیونکہ وہ نام جن میں تزکیہ نفس اور اپنی بڑائی ہو، جس کی وجہ سے مسمی (جس کا نام ہے اس )کا دین میں معظم یا  دین پر معظم ہونامعلوم ہو وہ ممنوع ہیں۔

چنانچہ سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃاللہ علیہ فتاوی رضویہ میں فرماتے ہیں:”نظام الدین، محی الدین، تاج الدین اور اسی طرح وہ تمام  نام جن میں مسمی  کا معظم فی الدین بلکہ  معظم علی الدین ہونا نکلے جیسے شمس الدین،  بدرالدین،  نورالدین،  فخرالدین، شمس الاسلام،  بدرالاسلام  وغیرذٰلک، سب کوعلماء اسلام  نے سخت ناپسند  رکھا اورمکروہ  وممنوع رکھا، اکابردین قدست اسرارھم کہ امثال اسلامی سے مشہور ہیں، یہ  ان کےنام نہیں القاب ہیں کہ ان مقامات رفیعہ تک وصول کے بعد مسلمین نے توصیفاانہیں ان لقبوں سے یاد کیا، جیسے شمس الائمہ حلوائی ،فخرالاسلام بزدوی،تاج الشریعہ، یونہی محی الحق والدین حضور پر نور سیدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہ۔“

 (فتاوی رضویہ ،جلد24،صفحہ683،رضافاؤنڈیشن، لاھور)

ایک اور جگہ ارشاد فرماتے ہیں

بعض مالکی علماء نے ایسے ناموں کے ممنوع ہونے میں ایک کتاب لکھی ہے:و نقل عن الامام النووی انہ کان یکرہ من یلقبہ بمحی الدین ویقول لا اجعل من دعانی بہ فی حل

ترجمہ : اور امام نووی سے نقل کیا ہے کہ وہ محی الدین کیساتھ اپنے ملقب ہونے کو ناپسند فرماتے تھے اور فرماتے تھے جو شخص مجھے اس لقب سے پکارے گا میں اسے معاف نہیں کروں گا

فتاویٰ رضویہ جلد 24 صفحہ 685 رضا فاؤنڈیشن لاہور

اور صدرالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں:”ایسے نام جن میں تزکیہ نفس اور خود ستائی نکلتی ہے، ان کو بھی حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے بدل ڈالا برہ کا نام زینب رکھا اور فرمایاکہ ’’اپنے نفس کا تزکیہ نہ کرو۔‘‘شمس الدین، زین الدین، محی الدین، فخر الدین، نصیر الدین، سراج الدین، نظام الدین، قطب الدین وغیرہا اسما جن کے اندر خود ستائی اور بڑی زبردست تعریف پائی جاتی ہے نہیں رکھنے چاہیے۔   رہا یہ کہ بزرگانِ دین وائمہ سابقین کو ان ناموں سے یاد کیا جاتا ہے تو یہ جاننا چاہیے کہ ان حضرات کے نام یہ نہ تھے، بلکہ یہ ان کے القاب ہیں کہ جب وہ حضرات مراتب علیہ اور مناصب جلیلہ پر فائز ہوئے تو مسلمانوں نے ان کو اس طرح کہا اور یہاں ایک جاہل اور ان پڑھ جو ابھی پیدا ہوا اور اس نے دین کی ابھی کوئی خدمت نہیں کی اتنے بڑے بڑے الفاظ فخیمہ(بزرگی والے الفاظ)سے یاد کیا جانے لگا۔“

 (بھارشریعت،جلد3،حصہ 16،صفحہ604،مکتبۃالمدینہ ،کراچی)

کتبہ: حبیب سلطان عطاری مدنی

نظر ثانی: ابو احمد مفتی محمد انس رضا قادری