کارٹون والی شرٹ بچوں کو پہنانا کیسا ہے؟

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ کارٹون والی شرٹ بچوں کو پہنانا کیسا ہے؟

الجواب بعون الملك الوهاب اللهم هداية الحق والصواب

اگر شرٹ پر ایسا کاٹون ہے جو کسی ذی روح کی حکایت نہیں کرتا محض خیالی مخلوق ہے تو وہ تصویر کے حکم میں نہیں آتا ایسی شرٹ بچے کو پہنانا جائز ہے لیکن بچنا بہتر ہے اور اگر وہ کارٹون کسی ذی روح کی حکایت کر رہا ہے اور اتنا بڑا ہے کہ زمین پر رکھ کر کھڑے ہو کر دیکھیں تو چہرہ واضح ہے تو ایسا لباس بچوں کو پہنانا جائز نہیں ہاں اگر کسی طرح اس کا چہرہ مٹادیا جائے تو پھر اس کا پہنانا جائز ہوگا۔

فتاویٰ رضویہ میں ہے : “ تصویر کسی طرح استیعاب مابہ الحیاۃنہیں ہوسکتی فقط فرق حکایت و فہم ناظر کا ہے اگر اس کی حکایت محکی عنہ میں حیات کا پتہ دے یعنی ناظر یہ سمجھے کہ گویا ذوالتصویر زندہ کو دیکھ رہا ہے تو وہ تصویر ذی روح کی ہے اور اگر حکایت حیات نہ کرے ناظر اس کے ملاحظہ سے جانے کہ یہ حی کی صورت نہیں میت و بے روح کی ہے تو وہ تصویر غیر ذی روح کی ہے۔ “

 (فتاویٰ رضویہ ، جلد 24 صفحہ 587 رضا فاؤنڈیشن)

 اعلیٰ حضرت امام اہلِ سنّت مولانا شاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں :  “ کسی جاندار کی تصویر جس میں اس کا چہرہ موجود ہو اور اتنی بڑی ہو کہ زمین پر رکھ کر کھڑے سے دیکھیں تو اعضاء کی تفصیل ظاہر ہو ، اس طرح کی تصویر جس کپڑے پر ہو اس کا پہننا ، پہنانا یا بیچنا ، خیرات کرنا سب ناجائز ہے اور اسے پہن کر نماز مکروہِ تحریمی ہے جس کا دوبارہ پڑھنا واجب ہے۔ ۔ ۔ ایسے کپڑے پر سے تصویر مٹادی جائے یا اس کا سر یا چہرہ بالکل محو کردیا جائے ، اس کے بعد اس کا پہننا ، پہنانا ، بیچنا ، خیرات کرنا ، اس سے نماز ، سب جائز ہوجائے گا۔ اگر وہ ایسے پکے رنگ کی ہو کہ مٹ نہ سکے دھل نہ سکے تو ایسے ہی پکے رنگ کی سیاہی اس کے سر یا چہرے پر اس طرح لگادی جائے کہ تصویر کا اتنا عضو محو ہوجائے صرف یہ نہ ہو کہ اتنے عضو کا رنگ سیاہ معلوم ہو کہ یہ محو ومنافی صورت نہ ہوگا۔ “

  (فتاویٰ رضویہ ،جلد 24 صفحہ 567 رضافاؤنڈیشن)

والله اعلم ورسوله عزوجل و صلى الله عليه وسلم

كتبه: محمد نثار عطاری

26 ربیع الثانی 1443ھ بمطابق 2 دسمبر 2021ء

 نظر ثانی۔ابواحمد مفتی محمد انس رضا عطاری