کیا فرماتے ہیں علماء اکرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہندووں کو جے رام بولنا کیسا۔؟
الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب۔
جے بولنا ہندوں کا شعار ہے جو تعظیم کے لیے بولا جاتا ہے۔ عام کسی کافر کی تعظیم جائز نہیں جبکہ رام ان کا معبود باطل ہے اب اس کی جے بولنا کفر ہے۔
حدیث پاک میں ہے:لیس منا من تشبہ بغیرنا لاتشبہوا بالیھود ولا بالنصاری فان تسلیم الیہود الاشارۃ بالاصابع و تسلیم النصارٰی الاشارۃ بالکف
یعنی ہم سے وہ نہیں جو غیروں کا شعار اختیار کرے، یہودو نصاری کا شعار نہ اختیار کرو یہود کا سلام ہاتھ سے اشارہ اور نصاری کا ہتھیلی سے اشارہ کرنا ہے،
جامع الترمذی ابواب الاستیذان والآداب باب ماجاء فی فضل الذی یبدأ الخ امین کمپنی دہلی ۲ /۹۴
اور فتاوی رضویہ میں جے شری رام کے بارے میں سوال ہوتاہے تو جوابا میرے آقااعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتےہیں : کافِروں کی جے بولنا کُفر ہے ۔
(فتاوٰی رضویہ ج ۱۴ص ۶۷۴)
فتاویٰ فقیہ ملت میں ہے: رام رام، جے رام جی کی، نمستے، نمسکار کرنا حرام و گناہ ہے اس لئے کہ یہ غیر مسلموں کا شعار ہے. اگر کوئی نمستے، نمسکار، جے رام جی کی کہے تو سب کو معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ ہندو ہے.
فتاویٰ فقیہ ملت ج:٢ ص:٧٠/مکتبہ فقیہ ملت
نوٹ اگر حالت مجبوری ہو تو الضرورات تبیح المحظورات کے تحت نمستے، نمسکار کہہ سکتا ہے.
فتاویٰ فقیہ ملت ج:٢ ص:٣٢٥/شبیر برادرز لاہور۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مجیب ۔؛ مولانا فرمان رضا مدنی
نظر ثانی۔: ابو احمد مولانا مفتی انس قادری مدنی