ویگن یا کار وغیرہ میں نماز پڑھنا کیسا ؟

 ویگن یا کار وغیرہ میں نماز پڑھنا کیسا ؟

اَلْجَوابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

ویگن،بس  کار اور ٹرین میں نفل نماز تو پڑھ سکتے ہیں، اگر کھڑے ہوکر پڑھنا ممکن نہیں تو بیٹھ کر اشارے سے بھی پڑھ سکتے ہیں۔ قبلے کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنا ممکن ہو تو قبلہ طرف منہ کیا جائے ورنہ جیسے بھی ممکن ہو۔ باقی فرض،واجب اور سنت فجر نہیں پڑھ سکتے بلکہ حکم ہے کہ گاڑی سے اتر کر زمین پر ادا کریں۔ اگر گاڑی نہیں رک رہی اور وقت جارہا ہے تو پھر جیسے بھی ممکن ہو نماز پڑھ لیں اگرچہ بیٹھے بیٹھے اشارے سے ، اس کے بعد اس کا اعادہ کریں۔

بخاری شریف میں ہے كانَ النبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ يُصَلِّي في السَّفَرِ علَى رَاحِلَتِهِ، حَيْثُ تَوَجَّهَتْ به يُومِئُ إيمَاءً صَلَاةَ اللَّيْلِ، إلَّا الفَرَائِضَ، حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ حضر محمد مصطفی علیہ السلام سواری پر بغیر استقبال قبلہ کے رات کی نماز ادا فرماتے سوائے فرائض کے۔۔

الراوي : عبدالله بن عمر | المحدث : البخاري | المصدر : صحيح البخاري

الصفحة أو الرقم: 1000 | خلاصة حكم المحدث : [صحيح]

اور متفق علیہ حدیث ہے۔۔عن جابرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْه قال: ((كان رسولُ اللهِ يُصلِّي على راحلتِه حيثُ توجَّهتْ به – أي في جِهة مَقصدِه – فإذا أراد الفريضةَ نزَلَ فاستقبلَ القِبلةَ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر خواہ اس کا رخ کسی طرف ہو  ( نفل )  نماز پڑھتے تھے لیکن جب فرض نماز پڑھنا چاہتے تو سواری سے اتر جاتے اور قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے۔

رواه البخاري الصلاة  علی الراحلة (ح نمبر 400)، ومسلم الصلاة علی الراحلة(540ح نمبر )

الدرالمختار میں ہے:”و يتنفل المقيم راكباً خارج المصر … مومئاً … إلى أي جهة توجهت دابته”.

۱)بیرونِ شہر (یعنی وہ جگہ جہاں سے مُسافر پر قصر کرنا واجب ہوتا ہے ) سواری پر (مثلاً چلتی کار، بس ، ویگن میں بھی نفل پڑھ سکتا ہے اور اس  صورت میں اِسقبالِ قبلہ یعنی قبلہ رُخ ہونا) شرط نہیں بلکہ سواری (یا گاڑی)جدھر جا رہی ہے اسی طرف مُنہ ہو اور رُکوع و سجود اِشارے سے کرے۔

درمختار مع ردالمحتار، کتاب الصلاة، باب الوتر و النوافل، مطلب فی الصلاة علی الدابة، ۲ /  ۵۸۸  ملخصاً  دار المعرفة بیروت

حاشية الطحطاوي علي مراقي الفلاح  میں ہے:”(و يتنفل) أي جاز له التنفل بل ندب له (راكباً خارج المصر) … ( مؤمياً إلى أي جهة) و يفتتح الصلاة حيث ( توجهت به دابته)”.نوافل ادا کرنا اشارہ کے ساتھ جس طرف سواری کا منہ ہو جائز ہے

(طحطاوی شریف ص: ٤٠٥ )

اور بہار شریعت میں ہے کہ: چلتی ریل گاڑی پر بھی فرض و واجب و سنت فجر نہیں  ہوسکتی اور اس کو جہاز اور کشتی کے حکم میں  تصور کرنا غلطی ہے کہ کشتی اگر ٹھہرائی بھی جائے جب بھی زمین پر نہ ٹھہرے گی اور ریل گاڑی ایسی نہیں  اور کشتی پر بھی اسی وقت نماز جائز ہے جب وہ بیچ دریا میں  ہو کنارہ پر ہو اور خشکی پر آسکتا ہو تو اس پر بھی جائز نہیں  ہے لہٰذا جب اسٹیشن پر گاڑی ٹھہرے اُس وقت یہ نمازیں  پڑھے اوراگر دیکھے کہ وقت جاتا ہے تو جس طرح بھی ممکن ہو پڑھ لے پھر جب موقع ملے اعادہ کرے کہ جہاں  مِن جہۃ العباد  کوئی شرط یا رکن مفقود ہو  اُس کا یہی حکم ہے۔

بہار شریعت حصہ چہارم صفحہ678 

واللہ اعلم و رسولہ اعلم عزوجل صلی اللہ علیہ والہ وسلم

مجیب ۔؛ مولانا فرمان رضا مدنی

نظر ثانی۔: ابو احمد مولانا مفتی انس قادری مدنی