عورت کا قربانی کا جانور ذبح کرنا کیسا ہے

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین مسئلہ ذیل میں کہ عورت کا قربانی کا جانور ذبح کرنا کیسا ہے؟ 

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب۔

عورت اگر ذبح کرنا جانتی ہے تو اس کا ذبح کرنا جائز ہے لیکن اس میں یہ خیال رہے کہ غیر محرم مردوں کے ساتھ اختلاط نہ ہو، اور بے پردگی سے بھی بچا جائے۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ” كِتَابُ الْأَضَاحِيُّ، بَابُ مَنْ ذَبَحَ ضَحِيَّةَ غَيْرِه “ کے تحت بیان کیا: ’’ وَأَمَرَ أَبُو مُوسَى بَنَاتِهِ أَنْ يُضَحِّينَ بِأَيْدِيهِنَّ ‘‘ ۔ یعنی حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹیوں کو اپنے ہاتھ سے قربانی کے جانور ذبح کرنے کا حکم دیا۔

( صحيح البخاري كِتَابُ الْأَضَاحِيُّ، بَابُ مَنْ ذَبَحَ ضَحِيَّةَ غَيْرِه، جلد 07، صفحہ 101، مطبوعہ دار طوق النجاۃ بیروت )۔

علامہ بدر الدین عینی حنفی رحمۃ اللہ علیہ اس اثر کی شرح میں فرماتے ہیں: ” وفيه: أن ذبح النساء نسائكهن يجوز إذا كن يحسن الذبح “. یعنی اس اثر میں دلیل ہے کہ عورتیں اپنی قربانیاں خود ذبح کر سکتی ہیں، بشرطیکہ وہ ذبح کرنے میں مہارت رکھتی ہوں۔

( عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری، جلد 21، صفحہ 155، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی – بیروت ).

بہار شریعت میں ہے: ” ذبح میں عورت کا وہی حکم ہے جو مرد کا ہے یعنی مسلمہ یا کتابیہ عورت کا ذبیحہ حلال ہے اور مشرکہ و مرتدہ کا ذبیحہ حرام ہے “.

( بہار شریعت جلد 03، حصہ 15، صفحہ 315، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی )۔

واللہ اعلم عزوجل و رسولہ الکریم اعلم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

            کتبہ            

محمد رئیس عطاری بن فلک شیر غفرلہ

ابو احمد مفتی انس رضا قادری دامت برکاتہم العالیہ