بکرے کی اوجھڑی کھانا کیسا

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس بارے  میں کہ بکرے کی اوجھڑی کھانا کیسا ہے ؟

الجواب بعون الملک الوهاب اللهم هداية الحق والصواب

اوجھڑی خواہ بکرے کی ہو یا کسی اور جانور کی،اسے کھانا مکروہ تحریمی،ناجائز و گناہ ہے۔کیونکہ اوجھڑی مثانے کی مثل ہے کہ مثانے میں پیشاب جمع ہوتا ہے اور اوجھڑی میں گوبر جمع ہوتا ہے۔مثانے کو حدیث پاک میں مکروہ فرمایا گیا جس سے فقہائے کرام نے مکروہ تحریمی مراد لیا، اسی طرح اوجھڑی کا بھی یہی حکم ہو گا ۔

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی تحقیق یہی ہے اور یہی معتمد و معتبر ہے ۔بڑے بڑے علما و مفتیان کرام کا یہی موقف ہے،ذیل میں اتقاءالجنان عما کرہ من اجزاء ذبح الحیوان المعروف اوجھڑی اور کپوروں کا شرعی حکم از مفتی غلام محمد بن محمد انور شرقپوری سے چند متبحر علما کے اقوال پیش کیے جاتے ہیں۔

مفتی محبوب علی خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”اوجھڑی اور آنتوں کا کھانا ناجائز ہے۔“

مفتی  اعظم صوبہ ایم پی ہندمحمد افضل الدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”زید کا قول اس بارے میں کہ اوجھڑی اور آنتوں کا کھانا جائز اور درست ہے،بدتر از بول ہے(یعنی اوجھڑی اور آنتوں کا کھانا جائز نہیں)۔“

حضرت علامہ مفتی  محمد شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”اوجھڑی اور آنتوں کا کھانا مکروہ تحریمی ہے اور مکروہ تحریمی کا ارتکاب ناجائز اور گناہ ہے۔“

حضرت علامہ مفتی جلال الدین امجدی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:”اوجھڑی اور آنتیں لید و گوبر کا خزانہ ہیں تو اس علت خباثت کے سبب اوجھڑی اور آنتوں کا کھانا بھی جائز نہیں۔“

حضرت علامہ مولانا قاضی عبدالرحیم بستوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”اوجھڑی اور آنتیں مکروہ تحریمی ہیں۔“

(اتقاءالجنان عما کرہ من اجزاء ذبح الحیوان)

محقق مسائل جدیدہ مفتی نظام الدین رضوی دامت برکاتہم العالیہ تحریر فرماتے ہیں:”اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی تحقیق میں اوجھڑی کھانا مکروہ تحریمی ہے۔۔۔فتاویٰ رضویہ کے مطابق اوجھڑی مثانہ یعنی پیشاب کی تھیلی کے حکم میں ہے۔مثانہ ایک ظرف ہے جس میں پیشاب جمع ہوتا ہے اور اوجھڑی بھی ایک ظرف ہے جس میں غلاظت جمع ہوتی ہے،اور مثانہ کو حدیث پاک میں رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے مکروہ قرار دیا ہے اور اتباع حدیث میں سراج الامۃ امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسے مکروہ قرار دیا ہے۔۔۔ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس کے مکروہ تحریمی ہونے پرقرآن کریم کی آیت کریمہ:ویحرم علیھم الخبائث سے استدلال کیا ہے جس کا معنی ہے کہ ”رسول ان پر خبیث و گندی چیزیں حرام فرمائے گا“

آگے فرماتے ہیں:”اوجھڑی اپنے مفہوم عام کے لحاظ سے مثانہ کے مفہوم عام کے مساوی ہے کہ  یہ بھی نجاست کا معدن ہے اور وہ بھی نجاست کی معدن۔گو ایک ضرورت شرعی کی بنا پر دونوں حکما نجاست نہیں تو دونوں اس مفہوم کے لحاظ سے ایک دوسرے کے معنی میں ہوئے،لہٰذا جو حکم مثانہ کا ہے وہی حکم اوجھڑی کا بھی ہو گا،بلکہ اوجھڑی کا یہ حکم بدرجۂ اولیٰ ہو گا۔“        

(فتویٰ از مفتی نظام الدین رضوی صاحب)

امام اہلسنت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:” اور اہل علم پر مستتر نہیں کہ استدلال بالفحوٰی یا اجرائے علت منصوصہ خاصہ مجتہد نہیں، کما نص علیہ العلامۃ الطحطاوی تبعا لمن تقدمہ من الاعلام  (جیسا کہ اس پر علامہ طحطاوی نے اپنے گزرے ہوئے بزرگوں کی اتباعی میں نص کی ہے۔ ت) اور یہاں خود امام مذہب رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اشیاء ستہ کی علت کراہت پر نص فرمایا کہ خباثت ہے۔ اب فقیر متوکلا علی اللہ تعالٰی کوئی محل شک نہیں جانتا کہ دُبر یعنی پاخانے کا مقام، کرش یعنی اوجھڑی ،امعاء یعنی آنتیں بھی اس حکم کراہت میں داخل ہیں، بیشک دُبرفرج وذکر سے اور کرش وامعاء (اوجھڑی اور انتڑیاں)مثانہ سے اگر خباثت میں زائد نہیں تو کسی طرح کم بھی نہیں، فرج وذکر اگر گزر گاہِ بول ومنی ہیں دُبرگزر گاہِ سرگین (گوبر)ہے، مثانہ اگر معدن بول (پیشاب کے جمع ہونے کی جگہ)ہے شکنبہ و رودہ مخزنِ فرث (اوجھڑی اور انتڑیاں پاخانے کے جمع ہونے کی جگہ ہیں)  ہے اب چاہے اسے دلالۃ النص سمجھئے خواہ اجرائے علت منصوصہ۔“

(فتاویٰ رضویہ ج20، ص 238،239 رضا فاؤنڈیشن لاہور)

          و  الله      اعلم عزوجل و رسولہ اعلم صلی اللہ علیہ وسلم                                          

   کتبـــــــــــــــــــــــــــہ

محمدایوب عطاری                 

02 ذوالحجۃ الحرام1441 ھ/13 جولائی 2021 ء

نظر ثانی   :محمد انس رضا قادری