کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ آن لائن نکاح ہوسکتا ہے؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
نکاح کے درست ہونے کے لیے نکاح کے رکن ایجاب وقبول کا دو گواہوں کی موجودگی میں ایک ہی مجلس میں ہونا ضروری ہے؛ اور یہ شرط (مجلس کا ایک ہونا)آن لائن ایجاب وقبول کی صورت میں مفقود ہے، اس لئے آن لائن ہونے والا نکاح شرعاً درست نہیں۔ ہاں بذریعہ توکیل آن لائن نکاح کے جواز کی صورت ہوسکتی ہے کہ فریقین (مرد و عورت) میں سے کوئی ایک فریق فون پر کسی ایسے آدمی کو اپنا وکیل بنادے جو دوسرے فریق کے پاس موجود ہو اور وہ وکیل شرعی گواہوں (یعنی دو مسلمان عاقل بالغ مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں) کی موجودگی میں فریقِ اول (غائب) کی طرف سے ایجاب کرلے اور دوسرا فریق اسی مجلس میں قبول کرلے تو اتحادِ مجلس کی شرط پوری ہونے کی وجہ سے یہ نکاح صحیح ہوجائے گا۔
بدائع الصنائع میں ہے:“(ومنها) أن يكون الإيجاب والقبول في مجلس واحد حتى لو اختلف المجلس۔۔۔لا ينعقد۔
ترجمہ: نکاح کے صحیح ہونے کی شرائط میں سے ایجاب و قبول کا ایک ہی مجلس میں ہونا ہے لہذا اگر مجلس الگ الگ ہوئی تو نکاح منعقد نہیں ہوگا۔
(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع، کتاب النکاح، جلد2، ص231، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ملتقطا)
درمختار میں ہے:“ومن شرائط الإيجاب والقبول: اتحاد المجلس لو حاضرين.ترجمہ: ایجاب و قبول کے صحیح ہونے کی شرائط میں سے یہ ہے کہ مجلس ایک ہی ہو اگر مرد و عورت دونوں حاضر ہوں۔
(درمختار، کتاب النکاح، جلد3، ص14، دارالفکر، بیروت)
اسکے تحت ردالمحتار میں ہے: (قوله: اتحاد المجلس) قال في البحر: فلو اختلف المجلس لم ينعقد”.
ترجمہ: مصنف کا قول کہ “مجلس ایک ہو” بحر الرائق میں فرمایا کہ اگر مجلس مختلف ہوگی تو نکاح منعقد نہیں ہوگا۔
(ردالمحتار، کتاب النکاح، جلد3، ص14، دارالفکر، بیروت)
ہدایہ شریف میں ہے:” ﻭﻻ ﻳﻨﻌﻘﺪ ﻧﻜﺎﺡ اﻟﻤﺴﻠﻤﻴﻦ ﺇﻻ ﺑﺤﻀﻮﺭ ﺷﺎﻫﺪﻳﻦ ﺣﺮﻳﻦ ﻋﺎﻗﻠﻴﻦ ﺑﺎﻟﻐﻴﻦ ﻣﺴﻠﻤﻴﻦ ﺭﺟﻠﻴﻦ ﺃﻭ ﺭﺟﻞ ﻭاﻣﺮﺃﺗﻴﻦ۔
ترجمہ: دو مسلمانوں کا نکاح منعقد نہیں ہو گا مگر دو ایسے گواہوں کی موجودگی میں کہ دونوں آزاد ہوں، سمجھدار ہوں، بالغ ہوں، مسلمان ہوں، دونوں مرد ہوں یا ایک مرد اور دو عورتیں ہوں۔
(الھدایۃ، کتاب النکاح، جلد،2 ص،3، دارالکتب العلمیہ، بیروت،)
آن لائن بذریعہ توکیل نکاح کے صحیح ہونے کے متعلق بدائع الصنائع میں ہے: ولو أرسل إليها رسولاً أو كتب إليها بذلك كتاباً فقبلت بحضرة شاهدين سمعا كلام الرسول وقراءة الكتاب؛ جاز لاتحاد المجلس من حيث المعنى”.ترجمہ: اور اگر مرد نے عورت کی طرف اپنا قاصد (وکیل) بھیجا یا اس کی طرف نکاح کے پیغام کا خط بھیجا، پھر عورت نے ایسے دو گواہوں کی موجودگی میں قبول کیا کہ جنہوں نے وکیل کے کلام کو سنا اور خط کے مضمون کو سنا، تو ایسا نکاح جائز ہے معنوی طور پر مجلس کے ایک ہونے کی وجہ سے۔
(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع، کتاب النکاح، جلد2، ص231، دارالکتب العلمیہ، بیروت)
بدائع الصنائع میں ہے: ثم النكاح كما ينعقد بهذه الألفاظ بطريق الأصالة ينعقد بها بطريق النيابة، بالوكالة، والرسالة؛ لأن تصرف الوكيل كتصرف الموكل، وكلام الرسول كلام المرسل۔ترجمہ: پھر جس طرح اصل شخص کی جانب سے الفاظ کے ذریعہ سے نکاح منعقد ہو جاتا ہے، اسی طرح وکیل اور خط کے ذریعے بطور نیابت نکاح منعقد ہو جاتا ہے، اس لیے کہ وکیل کا تصرف مؤکل کے تصرف کی طرح ہوتا ہے اور قاصد کا کلام اس کو بھیجنے والے کا ہی کلام شمار ہوتا ہے۔
(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع، کتاب النکاح، جلد2، ص231، دارالکتب العلمیہ، بیروت)
واللّٰه تعالی اعلم بالصواب۔
کتبه: ندیم عطاری مدنی حنفی۔
نظر ثانی: ابو احمد مفتی انس رضا قادری۔