نشے میں طلاق دی جائے تو وہ ہوجاتی ہے یا نہیں

سوال : کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے میں کہ نشے میں طلاق دی جائے تو وہ ہوجاتی ہے یا نہیں؟

الجواب

 نشے کی حالت میں طلاق دینے کی کچھ صورتیں ہیں

1) جان بوجھ کر ایسی چیز کو پیا جس کا پینا حرام ہے جیسے شراب،بھنگ یا افیون کو پیا تو اس سے نشہ چڑھنے کی حالت میں طلاق دی تو طلاق واقع ہو جائے گی۔ کیونکہ ان سب کا پینا حرام ہے لہذا اس شخص کے حرام چیز کو پینے اور گناہ کرنے کی وجہ سے اس کو ڈرانے دھمکانے کے لیے اس کی طلاق کو نافذ کیا جائے گا تاکہ آئندہ وہ ڈر اور خوف کی وجہ سے ایسی حرام چیزیں نہ پیے۔

 حدیث کی کتاب مصنف ابن ابی شیبہ میں یہ حدیث ہے کہ

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: نا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ: طَلَاقُ السَّكْرَانِ جَائِزٌ

ترجمہ : نشے والے کی طلاق جائز ہے یعنی واقع ہو گی

 مصنف ابن أبي شيبة -باب  من أجاز طلاق السكران -جلد 4 ص75 – المكتبة الشاملة

اسی طرح فتاوی عالمگیری میں ہے کہ: طلاق السکران واقع اذاسکرمن الخمراوالنبیذ ھومذھب اصحابنارحھم اللہ تعالیٰ کذافی المحیط

یعنی اگرکسی نےشراب یانبیذکےنشہ کی حالت میں طلاق دی توہمارےائمہ کرام کےنزدیک طلاق پڑجائےگی ایساہی محیط میں ہے

(فتاوی عالمگیری جلداول صفحہ 331)

فتاوی قاضی خان میں ہے کہ: خلع السکران جائزوکذالک سائر تصرفاتہ الا الردۃ والاقرار بالحدود الخ

ترجمہ : جو حالت نشہ میں ہو اس کا بیوی کو خلع دینا جائز ہے ایسے ہی اس کے حالت نشہ میں دیگر تصرفات نافذ ہوں گے سوائے چند کام کے

خانیہ مع ھندیہ جلد 1 صفحہ 536

در مختار مع ردالمحتار میں ہے:  ليدخل السكران أي فانه في حكم العاقل زجرا لہ فإن طلاقه صحيح فلا منافاة بين قولہ عاقل وقولہ الآتي او سكران

ترجمہ کا خلاصہ : حالت نشہ میں اگرچہ عقل زائل ہو جاتی ہے لیکن اس کے باوجود ڈرانے دھمکانے کے لیے اس کو عاقل کے حکم میں مانا جائے گا اور اس کی  طلاق واقع ہو گی

(کتاب الطلاق مطلب طلاق الدورج4  صفحہ338)

بہار شریعت میں ہے کہ: نشہ والے نے طلاق دی تو واقع ہو جائے گی کہ یہ عاقل کے حکم میں ہے اورنشہ خواہ شراب پینے سے ہو یا بنگ وغیرہ کسی اور چیز سے۔ افیون کی پینک میں طلاق دے دی جب بھی واقع ہو جائے گی

بہار شریعت جلد 8 صفحہ 111 مکتبۃ المدینہ

2) کسی نے مجبور کرکے اسے نشہ پلادیا اور نشہ میں طلاق دے دی تو صحیح یہ ہے کہ واقع نہ ہو گی۔

اسی طرح حالت اضطرار میں  نشہ پیا  اور نشہ میں طلاق دے دی تو صحیح یہ ہے کہ واقع نہ ہو گی۔(مثلاً پیاس سے مررہا تھا اور پانی نہ تھا)

جیسا کہ ردالمحتار میں ہے :

 صحح فی التحفۃ وغیرھا عدم الوقوع

ترجمہ کا خلاصہ: حالت مجوری یا حالت اضطراری میں نشہ پینے سے نشے میں طلاق واقع نہ ہونے کو صحیح قرار دیاگیا ہے

– كتاب الدر المختار وحاشية ابن عابدين رد المحتار – مطلب في تعريف السكران وحكمه -جلد 3 ص240  المكتبة الشاملة

فتاوی رضویہ میں اعلی حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ:  اگر جبر واکراہِ شرعی ہو۔ مثلاً قتل یا قطع عضو کی دھمکی دے جس کے نفاذپر یہ اسے قادر جانتا ہو، یایُوں کہ کسی نے ہاتھ پاؤں باندھ کر منہ چیرکر حلق میں شراب ڈال دی تو یہ صورت ضرور جبر کی ہے، اورتحقیق یہ ہےکہ اس نشہ میں اگر طلاق دے نہ پڑے گی۔

فتاوی رضویہ کتاب الطلاق جلد 12 صفحہ 386

اسی طرح بہار شریعت میں ہے کہ:  کسی نے مجبور کرکے اسے نشہ پلادیا یا حالت اضطرار میں پیا (مثلاً پیاس سے مررہا تھا اور پانی نہ تھا) اور نشہ میں طلاق دے دی تو صحیح یہ ہے کہ واقع نہ ہو گی۔

بہار شریعت جلد 8 صفحہ 112 مکتبۃ المدینہ

3) اگر ایسی نشہ آور چیز کو ضرورت کی حد تک پیا جس کا پینا جائز تھا، اور اب نشے میں طلاق دی تو طلاق واقع نہیں ہو گی  جیسے کہ ڈاکٹر کے کہنے پر دوا کے طور پرایسے سیرپ یا ٹیبلٹ کا استعمال کرنا جن سے نشہ آتا ہے جیسا کہ بدائع الصنائع میں ہے کہ

  بِخِلَافِ مَا إذَا زَالَ بِالْبَنْجِ وَالدَّوَاءِ لِأَنَّهُ مَا زَالَ بِسَبَبٍ هُوَ مَعْصِيَةٌ

ترجمہ کا خلاصہ : جب دوا کے طور پر نشے والی چیز کے استعمال کی وجہ سے عقل زائل ہو گئی تو اس صورت میں طلاق واقع نہیں ہو گی کیونکہ اس کی طلاق کسی گناہ کی وجہ سے زائل نہیں ہوئی ہے بلکہ جائز وجی سے ہوئی ہے

 كتاب بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع فصل في شرائط ركن الطلاق وبعضها يرجع إلى الزوج جلد 3 -ص99  المكتبة الشاملة

واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل و ﷺ

کتبہ   محمد وقاص عطاری

نظر ثانی  ابو محمد مفتی انس رضا قادری حفظہ اللہ تعالی

06 صفر المظفر 1443 ہجری