کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ طلاق کی عدت میں عورت زینت کرسکتی ہے یا نہیں؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
اگر عورت کو طلاق رجعی ہوئی ہے تو عورت عدت میں بناؤ سنگھار کرے جبکہ شوہر موجود ہو اور عورت کواس کے رجوع کرنے کی امید ہو۔ اور اگر شوہر موجود نہیں یا عورت کو شوہر کے رجوع کرنے کی امید نہیں ۔ تو زینت نہ کرے ۔ اور اگر عورت طلاق بائن یا وفات کی عدت میں ہے تو اُسے زینت کرنا حرام ہے۔
زینت نہ کرنے کا معنی یہ ہے کہ ہر قسم کے زیور سونے ، چاندی ، جواہر وغیرھا اور ہر قسم اور ہر رنگ کے ریشم کے کپڑے اگر چہ سیاہ ہوں نہ پہنے ۔ اور کپڑے اور بدن پر خوشبو نہ لگائے۔ نہ تیل استعمال کرے نہ کنگھی کرے نہ سیاہ سرمہ لگائے یوہیں سفید خوشبودار سرمہ بھی نہ لگائے ۔یونہی مہندی لگانا یا زعفران یا کسم یا گیروکے رنگے ہوئے کپڑے یا سرخ کپڑے پہننا یہ سب ممنوع ہیں ۔ البتہ سر درد کی وجہ سے سر میں تیل لگا سکتی ہے اور موٹے دندانوں کی کنگھی بھی کرسکتی ہے اور آنکھوں میں درد کی وجہ سے بقدر ضرورت سرمہ بھی لگاسکتی ہے ۔یعنی اگر رات کو سرمہ لگانا کفایت کرے تو رات ہی کو لگانے کی اجازت ہے ۔دن میں نہیں اور سفید سرمہ سے ضرورت پوری ہوجائے تو سیاہ سرمہ لگانا منع ہے ۔ یونہی عدت میں چوڑیاں پہننا گلے میں ہار یا لاکٹ، کانوں میں یا ناک میں کانٹے بالیاں پہننا سب ممنوع ہے ۔
فتاوی ہندیہ میں ہے: “المطلقة الرجعية تتشوف وتتزين۔ ويستحب لزوجها أن لا يدخل عليها حتى يؤذنها أو يسمعها خفق نعليه إذا لم يكن من قصده المراجعة وليس له أن يسافر بها حتى يشهد على رجعتها كذا في الهداية”. ترجمہ: طلاق رجعی والی عورت بناؤ سنگھار کرے اور زینت اختیار کرے، شوہر کے لیے مستحب ہے کہ جب اس کے پاس آئے تو اسے خبر دے دے یا اپنے جوتوں کی آہٹ سنا دے، یہ حکم اس صورت میں ہے کہ جب شوہر رجوع کا ارادہ رکھتا ہو، اس صورت میں عورت کو اپنے ساتھ سفر پر بھی نہیں لے جا سکتا جب تک آپ رجوع پر گواہ قائم نہ کر لے، اسی طرح ہدایہ میں ہے۔
(فتاوی ہندیہ، کتاب الطلاق، الباب الربع عشر فی الحداد، جلد1، ص535، دارالفکر،بیروت)
بہار شریعت میں ہے: طلاق رجعی کی عدت میں عورت بناؤ سنگار کرے جبکہ شوہر موجود ہو اور عورت کو رجعت کی امید ہو اور اگر شوہر موجودنہ ہو یا عورت کو معلوم ہو کہ رجعت نہ کریگا تو تزیُّن نہ کرے۔ اور طلاق بائن اور وفات کی عدت میں زینت حرام ہے اور مطلَّقہ رجعیہ کو سفر میں نہ لیجائے بلکہ سفر سے کم مسافت تک بھی نہ لیجائے جب تک رجعت پر گواہ نہ قائم کرلے یہ اُس وقت ہے کہ شوہر نے صراحۃً رجعت کی نفی کی ہو ورنہ سفر میں لے جانا ہی رجعت ہے۔
(بہار شریعت، رجعت کا بیان، جلد2، ص174، مکتبۃ المدینۃ)
بہار شریعت میں ہے: سوگ کے یہ معنی ہیں کہ زینت کو ترک کرے یعنی ہر قسم کے زیور چاندی سونے جواہر وغیرہا کے اور ہر قسم اور ہر رنگ کے ریشم کے کپڑے اگرچہ سیاہ ہوں نہ پہنے اورخوشبو کا بدن یا کپڑوں میں استعمال نہ کرے اور نہ تیل کا استعمال کرے اگرچہ اُس میں خوشبو نہ ہو جیسے روغن زیتون اور کنگھا کرنا اور سیاہ سرمہ لگانا۔ یوہیں سفید خوشبودار سرمہ لگانا اور مہندی لگانا اور زعفران یا کسم یا گیرو کا رنگا ہوا یا سُرخ رنگ کا کپڑا پہننا منع ہے ان سب چیزوں کا ترک واجب ہے۔ یوہیں پڑیا کا رنگ گلابی۔ دھانی۔ چمپئی اور طرح طرح کے رنگ جن میں تزین ہوتا ہے سب کو ترک کرے۔
(بہار شریعت، سوگ کا بیان، جلد 2، ص242، مکتبۃ المدینۃ)
البحر الرائق میں ہے :“وجب في الموت إظهاراً للتأسف علی فوات نعمة النکاح؛ فوجب علی المبتوتة إلحاقاً لها بالمتوفی عنها زوجها بالأولی؛ لأن الموت أقطع من الإبانة … دخل في ترك الزینة الامتشاط بمشط أسنانه ضیقة لا الواسعة، کما في المبسوط، وشمل لبس الحریر بجمیع أنواعه وألوانه ولو أسود، وجمیع أنواع الحلي من ذهب وفضة وجواهر، زاد في التاتارخانیة القصب”. ترجمہ: شوہر کی موت کی صورت میں عورت پر سوگ اور عدت واجب ہے، نکاح کی نعمت زائل ہونے پر افسوس ظاہر کرنے کے لئے، طلاق بائن والی عورت پر سوگ اور عدت بدرجہ اولی واجب ہے اس کو متوفیٰ عنہا زوجہا سے ملانے کی وجہ سے، اس لیے کہ موت طلاق بائن کے مقابلے میں نکاح کو ہمیشہ کے لئے منقطع کردیتی ہے،
اور ترک زینت میں تنگ دانے والی کنگھی داخل ہے نہ کہ کھلے دنوں والی، اور ریشم کے تمام کپڑے ہر رنگ میں اگرچہ سیاہ ہوں زینت میں شامل ہیں، ایسی طرح سونا چاندی اور جواہر کے تمام زیورات بھی زینت میں داخل ہیں، اور تاتارخانیہ میں سونے چاندی کے فیتے کا اضافہ فرمایا ہے۔
(بحرالرائق، کتاب الطلاق، فصل في الإحداد، جلد6، ص253،مطبوعہ کوئٹہ)
“طلاق کے آسان مسائل” میں ہے: اگر عورت کو طلاق رجعی ہوئی ہے تو عورت عدت میں بناؤ سنگھار کرے جبکہ شوہر موجود ہو اور عورت کواس کے رجوع کرنے کی امید ہو۔ اور اگر شوہر موجود نہیں یا عورت کو شوہر کے رجوع کرنے کی امید نہیں ۔ تو زینت نہ کرے ۔ اور شوہر کا رجوع کرنے کا ارادہ نہ ہو تو وہ بھی عورت کے ساتھ خلوت میں نہ جائے اور جب عورت کے مکان میں جائے تو خبر دیدے یا کھنکھار کر جائے یا اس طرح کہ عورت جوتے کی آواز سُنے۔
اور اگر عورت طلاق بائن یا وفات کی عدت میں ہے تو اُسے زینت کرنا حرام ہے۔ زینت نہ کرنے کا معنی یہ ہے ۔ہر قسم کے زیور سونے ، چاندی ، جواہر وغیرھا کے اور ہر قسم اور ہر رنگ کے ریشم کے کپڑے اگر چہ سیاہ ہوں نہ پہنے ۔ اور کپڑے اور بدن پر خوشبو نہ لگائے۔ نہ تیل استعمال کرے نہ کنگھی کرے نہ سیاہ سرمہ لگائے یوہیں سفید خوشبودار سرمہ بھی نہ لگائے ۔یونہی مہندی لگانا یا زعفران یا کسم یا گیروکے رنگے ہوئے کپڑے یا سرخ کپڑے پہننا یہ سب ممنوع ہیں ۔ البتہ سر درد کی وجہ سے سر میں تیل لگا سکتی ہے اور موٹے دندانوں کی کنگھی بھی کرسکتی ہے اور آنکھوں میں درد کی وجہ سے بقدر ضرورت سرمہ بھی لگاسکتی ہے ۔یعنی اگر رات کو سرمہ لگانا کفایت کرے تو رات ہی کو لگانے کی اجازت ہے ۔دن میں نہیں اور سفید سرمہ سے ضرورت پوری ہوجائے تو سیاہ سرمہ لگانا منع ہے ۔ یونہی عدت میں چوڑیاں پہننا گلے میں ہار یا لاکٹ، کانوں میں یا ناک میں کانٹے بالیاں پہننا سب ممنوع ہے ۔
(طلاق کے آسان مسائل، ص27۔28، مکتبۃ المدینۃ)
واللّٰه تعالی اعلم بالصواب۔
کتبه: ندیم عطاری مدنی حنفی۔
نظر ثانی: ابو احمد مفتی انس رضا قادری۔