کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے میں کہ مسجد میں اپنی ذات کے لیے سوال کرنا کیسا اور ایسے شخص کو دینا کیسا؟
جواب
اسکی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ
1)جو ضرورت مند نہ ہو اس کا بھیک مانگنا حرام اور اس کو دینا بھی حرام ہے۔
2)ایسا ضرورت مند جو مسافر نہ ہو ، یا مسافر ہو لیکن اس کا کوئی جاننے والا اس شہر میں ہو تو ایسے شخص کو اپنی ذات کے لیے بلند آواز سے مانگنا یا آواز بلند کیے بغیر مانگنے کے لیے ، خصوصاً جمعہ کے دن لوگوں کی گردنیں پھلانگ حرام ہے کیونکہ مسجد میں بلند آواز کرنے اور جمعہ کے دن لوگوں کی گردنیں پھلانگنے سے منع کیا گیا ہے اور ایسے شخص کو دینا گناہ پر اس کی مدد کرنا اور مکروہ ہے اور دینے والے کے لیے حکم ہے کہ جتنا دیا اس سے ستر گناہ زیادہ کفارے کے طور پر صدقہ کرے۔
3) ایسا ضرورت مند جو مسافر ہو، وہاں اس کا کوئی جاننے والا نہ ہوٓ۔ نہ وہ نمازیوں کو پھلانگتا ہو اور نہ ہی بار بار سوال کرتا ہے، تو اسے دینا جائز ہے۔
بلا ضرورت بھیک مانگنے والے کے بارے میں حدیث شریف میں ہے کہ
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ سَأَلَ النَّاسَ أَمْوَالَهُمْ تَكَثُّرًا فَإِنَّمَا يَسْأَلُ جمرا. فليستقل أَو ليستكثر»
حضرتِ سَیِّدُنا ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ رَسُوْلُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: کہ جو شخص مال بڑھانے کے لیے بھیک مانگے تو وہ انگارہ مانگتا ہے اب چاہے کم کرے یا زیادہ
(مشکوۃ المصابیح، کتاب الزکاۃ، باب من لا تحل لہ المسألۃ ومن تحل لہ،جلد 1 صفحہ576 مکتبہ شاملہ)
اس حدیث کی شرح میں مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ بِلا سخت ضرورت بھیک مانگے، بقدرِ حاجت مال رکھتا ہو، زیادتی کے لئے مانگتا پھرے وہ گویا دوزخ کے انگارے جمع کررہا ہے، چونکہ یہ مال دوزخ میں جانے کا سبب ہے اسی لئے اسے انگارہ فرمایا۔
(مراٰۃ المناجیح،ج3،ص55 )
اسی طرح بخاری شریف میں یہ حدیث پاک ہے کہ: مَا یَزَالُ الرَّجُلُ یَسْأَلُ النَّاسَ حَتَّی یَأْتِیَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ لَیْسَ فِی وَجْہِہِ مُزْعَۃُ لَحْم
ترجمہ: آدمی لوگوں سے مانگتا رہتا ہے یہاں تک کے قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کے چہرے پر گوشت نہ ہوگا۔‘‘
(بخاری، کتاب الزکاۃ، باب من سئل الناس تکثرا،۱/۴۹۷، حدیث:۱۴۷۴)
جو حاجت مند نہ ہو اس کو بھیک دینے کے حوالے سے فتاوی رضویہ میں ہے کہ قَوی، تندرست، قابلِ کسب (یعنی کمانے کے قابل) جو بھیک مانگتے پھرتے ہیں ان کو دینا گناہ ہے کہ ان کا بھیک مانگنا حرام ہے اور ان کو دینے میں اس حرام پر مدد، اگر لوگ نہ دیں تو جَھک ماریں اور کوئی پیشہ حلال اختیار کریں۔ درِّمختار میں ہے: یہ حلال نہیں کہ آدمی کسی سے روزی وغیرہ کا سوال کرے جبکہ اس کے پاس ایک دن کی روزی موجود ہو یا اس میں اس کے کمانے کی طاقت موجود ہو، جیسے تندرست کمائی کرنے والا اور اسے دینے والا گنہگار ہوتا ہے اگر اس کے حال کو جانتا ہے کیونکہ اس نے حرام پر اس کی مدد کی۔
(در مختار مع ردالمحتار،ج 3،ص357، فتاویٰ رضویہ،ج 23،ص464)
مسجد میں آواز بلند کرنے کے حوالے سے صحاح ستہ میں شامل حدیث کی کتاب سنن ابن ماجہ میں ہے کہ: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُوسُفَ السُّلَمِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ: حَدَّثَنَا الْحَارِثُ بْنُ نَبْهَانَ قَالَ: حَدَّثَنَا عُتْبَةُ بْنُ يَقْظَانَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ وَاثِلَةَ بْنِ الْأَسْقَعِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «§جَنِّبُوا مَسَاجِدَكُمْ صِبْيَانَكُمْ، وَمَجَانِينَكُمْ، وَشِرَاءَكُمْ، وَبَيْعَكُمْ، وَخُصُومَاتِكُمْ، وَرَفْعَ أَصْوَاتِكُمْ
رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: اپنی مسجدوں کو اپنے بچوں اور دیوانو اور خرید وفروخت اور آواز بلند کرنے سے بچاؤ،
(سنن ابن ماجہ کتاب المساجد الجماعت باب مایکرہ فی المساجد جلد1 ص 247 مکتبہ الشاملہ)
مسجد میں مانگنے کے حوالے سے درمختار میں ہے: یحرم فیہ(ای المسجد) السوال ویکرہ الاعطاء
ترجمہ کا خلاصہ: مسجد میں سوال کرنا یعنی مانگنا حرام اور سائل کو دینا مکروہ ہے۔
( الدرالمختار ،کتاب الصلوۃ ، باب مایفسد الصلوٰۃ وما یکرہ فیھا، جلد1 صفحہ659 مکتبہ شاملہ)
فتاوی ہندیہ میں مسجد میں مانگنے والے کے حوالے سے ہے کہ: لَا يَنْبَغِي أَنْ يَتَصَدَّقَ عَلَى السَّائِلِ فِي الْمَسْجِدِ الْجَامِعِ؛ لِأَنَّ ذَلِكَ إعَانَةٌ عَلَى أَذَى النَّاس
ترجمہ کا خلاصہ : جامع مسجد میں مانگنے والے کو صدقہ نہیں دینا چاہیے کیونکہ ایسے شخص کو دینا لوگوں کو اذیت دینے والے کی مدد کرنا ہے
(الفتاوی الھندیہ کتاب الھبہ باب الثانی عشر فی الصدقہ جلد 4 صفحہ 408 مکتبہ شاملہ)
اسی طرح ایسے شخص کو دینے والے کے ستر گناہ زیادہ کفارے کے طور پر صدقہ کرنے کے حولے سے فتاوی ہندیہ میں ہے کہ : هَذَا فَلْسٌ وَاحِدٌ يَحْتَاجُ إلَى سَبْعِينَ فَلْسًا لِتَكُونَ تِلْكَ السَّبْعُونَ كَفَّارَةً عَنْ الْفَلْسِ الْوَاحِدِ
ترجمہ کا خلاصہ : یہ ایک درہم جو مسجد میں مانگنے والے کو دیا گیا ستر درہموں کے صدقہ کرنے کی طرف محتاج ہے تاکہ یہ ستر درہم اس ایک درہم کا کفارہ ہو جائیں
(الفتاوی الھندیہ کتاب الھبہ باب الثانی عشر فی الصدقہ جلد 4 صفحہ 408 مکتبہ شاملہ)
مسافر ، ضرورت مند ، مسجد کے ادب کا خیال رکھ کر مانگنے والے شخص کے بارے میں رد المحتار میں ہے کہ: وَالْمُخْتَارُ أَنَّ السَّائِلَ إنْ كَانَ لَا يَمُرُّ بَيْنَ يَدَيْ الْمُصَلِّي وَلَا يَتَخَطَّى الرِّقَابَ وَلَا يَسْأَلُ إلْحَافًا بَلْ لِأَمْرٍ لَا بُدَّ مِنْهُ فَلَا بَأْسَ بِالسُّؤَالِ وَالْإِعْطَاءِ اهـ وَمِثْلُهُ فِي الْبَزَّازِيَّةِ. وَفِيهَا وَلَا يَجُوزُ الْإِعْطَاءُ إذَا لَمْ يَكُونُوا عَلَى تِلْكَ الصِّفَةِ الْمَذْكُورَةِ. قَالَ الْإِمَامُ أَبُو نَصْرٍ الْعِيَاضِيُّ: أَرْجُو أَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ – تَعَالَى – لِمَنْ يُخْرِجُهُمْ مِنْ الْمَسْجِدِ
مختار قول یہ ہے کہ اگر مانگنے والا نمازیوں کے سامنے سے نہ گزرے اور نہ کی گردنوں کو پھلانگے اور ضرورت کے لیے سوال کرے تو اس کے اس طرح مانگنے میں اور اس کو دینے میں کوئی حرج نہیں ۔ فتاوی بزازیہ میں بھی اسی طرح کا مسئلہ موجود ہے کہ مسجد میں ایسے شخص کو دینا جائز نہیں جو ضرورت مند نہ ہو ، نمازیوں کے سامنے سے گزرے ، گردنیں پھلانگے
(رد المحتار کتاب الصلوۃ باب الجمعہ جلد 2 صفحہ 164 مکتبہ شاملہ)
اسی طرح کتاب احسن الوعاء لآداب الدعاء ( فضائل دعا ) میں امام اہل سنت فرماتے ہیں جس کا ترجمہ بھی اسی کتاب میں المدینۃ العلمیہ نے لکھا ہے کہ: أقول: وإن فرّق بمن تعوّد فیمنع عطاء ہ مطلقاً أو ورد غریباً کئیبا لا یعرف الناس فیباح إن لم یتخطّ لم یعد وکان توفیقاً، واللہ تعالٰی أعلم
میں کہتا ہوں: اِن دونوں اقوال میں تطبیق کی صورت یہ ہے کہ اگر وہ شخص پیشہ ور فقیر ہے تو اسے دینا، چاہے مسجدمیں ہو یا علاوہ مسجد، بہر صورت منع ہے اور اگر وہ شخص خستہ حال مسافر ہے کہ وہاں اس کا کوئی جاننے والا نہیں، اور نہ وہ نمازیوں کو پھلانگتا ہے نہ ہی بار بار سوال کرتا ہے، تو اسے دینا جائز ہے۔
(کتاب فضائل دعا صفحہ 279 مکتبہ المدینہ)
واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل و ﷺ
کتبہ محمد وقاص عطاری
نظر ثانی ابو محمد مفتی انس رضا قادری حفظہ اللہ تعالی
03 محرم الحرام 1443 ہجری