کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس بارے میں کہ مسجد میں امام کا عورتوں کو دم کرنا،نیز روحانی علاج کا سامان اور دوائیں مسجد کی الماری میں رکھنا اور ان کو بیچنا کیسا ہے؟
بسم الله الرحمن الرحيم
الجواب بعون الملک الوهاب اللهم هداية الحق والصواب
مسجد میں فی سبیل اللہ دم و تعویذ کے ذریعے علاج کرنا جائز ہے جبکہ شرعی احتیاطوں کو ملحوظ رکھا جائے لیکن اس کے لئے مسجد کو کلینک بنا لینا اس طرح کہ مسجد کے لئے وقف شدہ الماری میں دوائیں رکھنا یہ ناجائز ہے کیونکہ یہ مسجد کے لئے وقف کی ہوئی چیز کا غیر مصرف میں استعمال ہے، اسی طرح مسجد میں دوائیں بیچنا یا دم و تعویذ کی اجرت لینا ناجائز ہے کیونکہ حدیث پاک میں مسجد میں خرید و فروخت سے منع کیا گیا ہے۔مسجد میں روحانی علاج فی سبیل اللہ بھی ہو تو بھی عورتوں کا مسجد میں آنا شرعی قباحتوں کا مجموعہ ہے جیسے شرعی پردہ کے بغیر،حالت حیض میں آنا یا ایسے بچوں کو لانا جو شور کریں گے یا مسجد کو ناپاک کریں گے،لہذا عورتوں کو مسجد میں علاج کی غرض سے آنے سے منع ہی کیا جائے گا۔
بہار شریعت میں ہے:”مسجد کی اشیا مثلا لوٹا چٹائی وغیرہ کو کسی دوسری غرض میں استعمال نہیں کرسکتے مثلاً لوٹے میں پانی بھر کر اپنے گھر نہیں لیجاسکتے اگرچہ یہ ارادہ ہو کہ پھر واپس کر جاؤں گا اُسکی چٹائی اپنے گھر یا کسی دوسری جگہ بچھانا ناجائز ہے۔ یوہیں مسجد کے ڈول رسی سے اپنے گھر کے لیے پانی بھر نا یا کسی چھوٹی سے چھوٹی چیز کو بے موقع اور بے محل استعمال کرنا ناجائز ہے۔
(بہار شریعت،جلد 2،حصہ 10،صفحہ 561،562،مکتبۃ المدینہ)
فتاوی امجدیہ میں ہے:”مسجد کی چیزیں ذاتی صرف میں نہیں لا سکتا”
(فتاوی امجدیہ،جلد3،صفحہ 46،مکتبہ رضویہ،کراچی)
ابن ماجہ کی حدیث پاک کا ایک جز یہ بھی ہے:”وبیعکم”ترجمہ: اپنی مساجد کو خرید و فروخت سے بچاؤ۔
(ابن ماجہ،جلد 1،کتاب المساجد الجماعات،باب ما یکرہ فی المساجد،415،دار المعرفہ)
اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”عوض مالی پر تعویذ دینا بیع ہے اور مسجد میں بیع وشرا(خرید و فروخت) ناجائز ہے۔
(فتاوی رضویہ،جلد 8،صفحہ 95،رضا فاؤنڈیشن لاہور)
بہار شریعت میں ہے:”جامع مسجد میں تعویذ بیچنا، ناجائز ہے جیسا کہ تعویذ والے کیا کرتے ہیں کہ اس تعویذ کا یہ ہدیہ ہے اتنا دو اور تعویذ لے جاؤ۔”
(بہار شریعت،جلد 3،حصہ 16،صفحہ 498،مکتبہ المدینہ)
فتاوی رضویہ میں ہے:”فاسق معلن کو امام بنانا گناہ اور اس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی کہ پڑھنی گناہ اور پھیرنی واجب۔”
(فتاوی رضویہ،جلد 6،صفحہ 692،رضا فاؤنڈیشن لاہور)
امیر اہلسنت فرماتے ہیں: “اگر گھر بیٹھے علاج ممکن نہیں، تو کسی محرم کے ذریعے ترکیب بنا لے ۔اگر کوئی ایسا مرد بھی نہیں تو اب شرعی پردے کی تمام شرائط کے ساتھ کسی عاملہ( عورت) کے پاس تعویذ لینے جائے اگر عاملہ بھی میسر نہیں یا اس سے شفا نہ ہو تو کسی بوڑھے اور نیک عامل کے پاس جائے۔یہ بھی نہ ہو سکے تو کسی بھی مسلمان عامل کے پاس جائے مگر جب بھی باجازت شرعی باہر نکلے تو بیان کردہ شرعی پردہ اور اس کی قیودات کا لحاظ ضروری ہے۔عامل کے ساتھ لوچ دار نرم گفتگو، بے تکلفی یا تنہائی ہرگز نہ ہو۔جو عامل عورتوں کے ساتھ بے تکلف بنتا ،بات بات پرقہقے لگاتا، خوب ڈینگیں مارتا اوراپنے کارنامے سناتا ہو ایسوں کے پاس جانا سخت تشویشناک ہے ۔اور عامل کو اگر عورت پر خصوصی توجہ دیتا ، فون وغیرہ پر خود ہی رابطہ کرتا اور اس طرح کا پیغام وغیرہ دیتا پائیں کہ اکیلی آؤ تاکہ اچھی طرح علاج کیا جا سکے ، تو ایسے عامل کی چھاؤں سے بھی دور بھاگیں ورنہ شاید عمر بھر پچھتانا پڑے۔
(پردے کے بارے میں سوال جواب،صفحہ 267،مکتبۃ المدینہ)
حدیث پاک میں ہے:”فانی لا احل المسجد لحائض ولا جنب”ترجمہ:تو بے شک میں مسجد کو حیض والی اور جنبی کے لئے حلال نہیں کرتا۔
(ابوداؤد،جلد 1،کتاب الطہارۃ، باب في الجنب یدخل المسجد،دار الرسالۃ العالمیہ)
حدیث پاک میں ہے:”جنبوا مساجدکم صبیانکم”ترجمہ: اپنی مساجد کو بچوں سے بچاؤ۔
(ابن ماجہ،جلد 1،کتاب المساجد الجماعات،باب ما یکرہ فی المساجد،415،دار المعرفہ)
در مختار میں ہے:”و یحرم ادخال صبیان و مجانین حیث غلب تنجیسھم و الا فیکرہ”ترجمہ:ایسا بچہ جس سے نجاست (یعنی پیشاب وغیرہ کردینے) کا خطرہ ہو اور پاگل کو مسجد کے اندر لے جانا حرام ہے اور اگر نجاست کا خطرہ نہ ہو تو مکروہ ہے۔
(درمختار،جلد 2،کتاب الصلاة، باب ما یفسد الصلاة…الخ،صفحہ 518،دار المعرفہ)
اعلی حضرت فرماتے ہیں:”عورتیں نماز مسجد سے ممنوع ہیں اور واعظ یا میلاد خواں اگر عالم سنی صحیح العقیدہ ہو اور اس کا وعظ وبیان صحیح و مطابق شرع ہو اور جانے میں پوری احتیاط اور کامل پردہ ہو اور کوئی احتمال فتنہ نہ ہو اور مجلس رجال سے دور ان کی نشست ہو تو حرج نہیں مگر مساجد کے جانے میں ان شرائط کا اجتماع خیال و تصور سے باہر شاید نہ ہوسکے۔
(فتاوی رضویہ،جلد 22، صفحہ 239،رضا فاؤنڈیشن لاہور)
واللہ اعلم عزوجل و رسولہ اعلم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کتبہ : ابو بنتین محمد فراز عطاری مدنی بن محمد اسماعیل
ابو احمد مفتی انس رضا قادری دامت برکاتہم العالیہ
( مورخہ 29 جولائی 2021 بمطابق 18 ذو الحجہ 1442ھ بروز جمعرات )