سوال : بخشش والی راتوں اور دنوں میں جو اللہ عزوجل بخشش فرماتا ہے یہ حکم عمومی ہے یا بعض خاص لوگوں کی بخشش ہوتی ہے۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَاب
بخشش والی راتوں اور دنوں میں مخصوص اشخاص کے علاوہ سبھی کی بخشش کر دی جاتی ہے جس میں شرابی زانی ‘والدین کا نافرمان’ بغض و کینہ رکھنے والا’ قطع تعلقی کرنے والے شامل ہیں۔
شعب الایمان کی روایت ہے ”قال: ” ولله عز وجل في كل يوم من شهر رمضان عند الإفطار ألف ألف عتيق من النار كلهم قد استوجبوا النار، فإذا كان آخر يوم من شهر رمضان أعتق الله في ذلك اليوم بقدر ما أعتق من أول الشهر إلى آخره، وإذا كانت ليلة القدر يأمر الله عز وجل جبريل عليه السلام، فيهبط في كبكبة من الملائكة إلى الأرض ومعهم لواء أخضر، فيركز اللواء على ظهر الكعبة، وله مائة جناح، منها جناحان لا ينشرهما إلا في تلك الليلة، فينشرهما في تلك الليلة، فيجاوز المشرق إلى المغرب، فيبث جبريل عليه السلام الملائكة في هذه الليلة فيسلمون على كل قائم، وقاعد، ومصل وذاكر يصافحونهم، ويؤمّنون على دعائهم حتى يطلع الفجر، فإذا طلع الفجر ينادي جبريل: معاشر الملائكة! الرحيل الرحيل، فيقولون: يا جبريل! فما صنع الله في حوائج المؤمنين من [ص:278] أمة محمد صلى الله عليه وسلم؟ فيقول جبريل: نظر الله إليهم في هذه الليلة فعفا عنهم، وغفر لهم إلا أربعة “، فقلنا: يا رسول الله من هم؟ قال: ” رجل مدمن خمر، وعاق لوالديه، وقاطع رحم، ومشاحن “. قلنا: يا رسول الله، ما المشاحن؟ قال: هو المصارم. ۔
“حق تعالیٰ شانہ رمضان شریف میں روزانہ افطار کے وقت ایسے دس لاکھ آدمیوں کو جہنم سے خلاصی مرحمت فرماتا ہے جو جہنم کے مستحق ہوچکے ہوتے ہیں ، اور جب رمضان کا آخری دِن ہوتا ہے تو یکم رمضان سے آخری رمضان تک جس قدر لوگ جہنم سے آزاد کیے گئے ہوتے ہیں اُن کے برابر اُس ایک دِن میں آزاد فرماتا ہے ۔ اور جس رات ’’شبِ قدر‘‘ ہوتی ہے تو اُس رات حق تعالیٰ شانہ حضرت جبرئیل علیہ السلام کو ( زمین پراُترنے کا ) حکم فرماتا ہے، وہ فرشتوں کے ایک بڑے لشکر کے ساتھ زمین پر اُترتے ہیں ، اُن کے ساتھ ایک سبز جھنڈا ہوتا ہے، جس کو کعبہ کے اوپر کھڑا کرتے ہیں ۔
حضرت جبرئیل ؑ کے سو (100)بازو ہیں جن میں سے دو بازو صرف اِسی ایک رات میں کھولتے ہیں ، جن کو مشرق سے مغرب تک پھیلا دیتے ہیں ، پھر حضرت جبرئیل فرشتوں کو تقاضا فرماتے ہیں : ’’جو مسلمان آج کی رات کھڑا ہو یا بیٹھا ہو، نماز پڑھ رہا ہو یا ذکر کر رہا ہواُس کو سلام کریں اور اُس سے مصافحہ کریں اور اُن کی دُعاؤں پر آمین کہیں ، صبح تک یہی حالت رہتی ہے، جب صبح ہوجاتی ہے تو حضرت جبرئیل آواز دیتے ہیں : ’’اے فرشتوں کی جماعت! اب کوچ کرواور چلو!۔‘‘ فرشتے حضرت جبرئیل سے پوچھتے ہیں : ’’اللہ تعالیٰ نے احمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت کے مؤمنوں کی حاجتوں اور ضرورتوں میں کیا معاملہ فرمایا ؟‘‘ وہ کہتے ہیں : ’’ اللہ تعالیٰ نے اِن پر توجہ فرمائی اور چار شخصوں کے علاوہ سب کو معاف فرمادیا ۔‘‘ صحابہ نے عرض کیا : ’’ وہ چار شخص کون سے ہیں؟ ‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
1۔ایک وہ شخص جو شراب کا عادی ہو۔
2۔دوسرا وہ شخص جو والدین کی نافرمانی کرنے والا ہو ۔
3۔تیسرا وہ شخص جو قطع رحمی کرنے والا اور ناطہ توڑنے والا ہو ۔
4۔چوتھا وہ شخص جو (دِل میں)کینہ رکھنے والا ہو اور آپس میں قطع تعلق کرنے والا ہو ۔‘
شعب الإيمان (5/ 277)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک شب میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے پاس نہیں پایا تو آپ کی تلاش میں میں باہر نکلی آپ بقیع میں تشریف فرما تھے آپ نے فرمایا کیا تمہیں اندیشہ تھا کہ اللہ اور اس کے رسول تم پر ظلم کریں گے؟
میں نے عرض کیا یا رسول میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ آپ ازواج مطہرات میں سے کسی اور کے ہاں تشریف لے گئے ہیں ۔ارشاد ہوا کہ اللہ تعالیٰ پندرہویں شعبان کی رات سماء دنیا پر نزول فرماتے ہیں اور قبیلۂ کلب کی بکریوں کے بالوں کے برابر لوگوں کی مغفرت فرماتے ہیں، اس رات میں بے شمار افراد کو بخشش کا پروانہ عطا کیا جاتا ہے مگر مشرک،کینہ پرور،قطع رحمی کرنے والے، متکبرانہ انداز میں ٹخنوں سے نیچے کپڑے پہننے والے،والدین کی نافرمانی کرنے والے اور مے نوشی یعنی شراب پینے والے پر اس کی نگاہ رحمت نہیں ہوتی اور اس رات بھی محروم رہتے ہیں
(مسند احمد جلد نمبر 6/238 رقم الحدیث 26771 ترمذی رقم الحدیث 744 سنن ابن ماجہ رقم الحدیث 1452/بیھقی فی شعب الایمان رقم الحدیث 3667)
مشکوٰۃ شریف میں ہے: وَعَنْ اَبِیْ مُوْسٰی الْاَشْعَرِیِّ عَنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ اِنَّ اﷲَ تَعَالٰی لَیَطَّلِعُ فِی لَیْلَۃِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَیَغْفِرُ لِجَمِیْعِ خَلْقِہٖ اِلَّالِمُشْرِکٍ اَوْ مُشَاحِنٍ رَوَاہُ ابْنُ مَاجَۃَ وَرَوَاہُ اَحْمَدُ عَنْ عَبْدِاﷲِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ وَ فِیْ رَوَایَتِہٖ اِلَّا اثْنَیْنِ مُشَاحِنٌ وَقَاتِلُ نَفْسٍ۔
ترجمہ: حضرت ابوموسی اشعری (رضی اللہ عنہ) راوی ہیں کہ سر تاج دو عالم ﷺ نے فرمایا اللہ جل شانہ، نصف شعبان کی رات کو (یعنی شب برأت کو دنیاوالوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور مشرک اور کینہ رکھنے والے کے علاوہ اپنی تمام مخلوق کی بخشش فرماتا ہے (سنن ابن ماجہ) ، امام احمد نے اس روایت کو عبداللہ ابن عمرو ابن العاص سے نقل کیا ہے اور ان کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ کینہ رکھنے والے (اور ناحق کسی کی) زندگی ختم کردینے والے (کے علاوہ اللہ تعالیٰ ) اس شب کو تمام مخلوق کی بخشش فرماتا ہے) ۔
تراویح کا بیان ۔: حدیث نمبر ١٢٧٩
التیسیر بشرح الجامع الصغیرمیں ہے: (أن الله تعالى ليطلع في ليلة النصف من شعبان) على عباده (فيغفر لجميع خلقه) ذنوبهم الصغائر۔ کہ اللہ پاک تمام مخلوق کے صغیرہ گناہ بخش دیتا ہے.
التيسير بشرح الجامع الصغير،جلد1،صفحہ262،مكتبة الإمام الشافعي – الرياض
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مجیب ۔؛ مولانا فرمان رضا مدنی
نظر ثانی۔: ابو احمد مولانا مفتی انس قادری مدنی