شکار کرنا کیسا

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ شکار کرنا کیسا؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

شکار اگر غذا یا دوا یا تجارت کی غرض  کے لیے کیا جائے تو یہ جائز ہے کیونکہ اللّٰہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید میں شکار کی اجازت مرحمت فرمائی ہے جبکہ بطورِ تفریح شکار کرنا حرام ہے ۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور تفریح شکار کرنے کی مذمت فرمائی ہے اور فقہاء نے بھی اس سے منع فرمایا ہے۔

اللّٰہ پاک فرماتا ہے: وَاِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوْاؕ-ترجمہ: اور جب تم احرام سے باہر ہو جاؤتو شکار کر سکتے ہو۔

(پ6، سورة المائدة، آیت نمبر 2)

اور اللّٰہ فرماتا ہے۔ یَسْئلُوْنَكَ مَا ذَاۤ اُحِلَّ لَهُمْؕ-قُلْ اُحِلَّ لَكُمُ الطَّیِّبٰتُۙ-وَ مَا عَلَّمْتُمْ مِّنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِیْنَ تُعَلِّمُوْنَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ اللّٰهُ٘-فَكُلُوْا مِمَّاۤ اَمْسَكْنَ عَلَیْكُمْ وَ اذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلَیْهِ۪-وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ۔ ترجمہ: اے حبیب! تم سے پوچھتے ہیں کہ اُن کے لئے کیا حلال ہوا ؟ تم فرمادو کہ حلال کی گئیں تمہارے لئے پاک چیزیں اور ان شکاری جانوروں (کا شکار) جنہیں تم نے شکار پر دوڑاتے ہوئے شکار کرنا سکھا دیا ہے۔ تم انہیں وہ سکھاتے ہو جس کی اللہ نے تمہیں تعلیم دی ہے تو اس میں سے کھاؤ جو وہ شکار کرکے تمہارے لئے روک دیں اور (شکاری جانور کو چھوڑتے وقت) اس پراللہ کا نام لو اور اللہ سے ڈرتے رہو بیشک اللہ بہت جلد حساب لینے والا ہے۔

(پ6، سورة المائدة، آیت نمبر 4)

عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: ” من سكن البادية جفا، ومن اتبع الصيد غفل، ومن اتى ابواب السلطان افتتن ” ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے بادیہ (صحراء و بیابان) کی سکونت اختیار کی وہ سخت طبیعت والا ہو گیا، جس نے شکار کا پیچھا کیا وہ غافل ہو گیا اور جو بادشاہ کے دروازے پر آیا وہ فتنوں کا شکار ہو گیا“

(مشکوٰة المصابیح، کتاب الامارة  والقضاء، الفصل الثانی، ج2، ص9، حدیث 3701، دارالکتب  العلمیه  بیروت)

 اِس حدیثِ پاک کے تحت مُفَسّرِ شہیر، حکیمُ الْامَّت حضرت ِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان فرماتے ہیں: یعنی جو شکار کا شغل اپنا وَطیرہ بنا لے کہ محض شوقیہ شکار کھیلتا رہے وہ اللہ کے ذِکر، نماز و جماعت،  جمعہ، رِقَّتِ قلب سے محروم رہتا ہے۔حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّم نے کبھی شکار نہ کیا۔بعض صحابہ نے شکار کیا ہے مگر شکارکرنا اور ہے اور شکار کا مشغلہ وہ بھی محض شوقیہ کچھ اور،  شکار کا ذِکر تو قرآنِ کریم میں ہے یہاں مشغلۂ شوقیہ کا ذِکر ہے لہٰذا یہ حدیث حکمِ قرآن کے خلاف نہیں۔

( مرآۃ المناجیح، ج5، ص 341، ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور)

بدائع الصنائع میں ہے کہ:” أما الأول فيباح اصطياد ما في البحر والبر مما يحل أكله وما لا يحل أكله، غير أن ما يحل أكله يكون اصطياده للانتفاع بلحمه وما لا يحل أكله يكون اصطياده للانتفاع بجلده وشعره وعظمه أو لدفع أذيته “ترجمہ: بہرحال پہلی صورت پس سمندر اور زمین میں جو جانور  ہیں ان کا شکار کرنا جائز ہے ان جانوروں کا جن کا کھانا جائز ہے اور ان کا بھی جن کا کھانا جائز نہیں ہے۔ سوائے اس کے کہ جن کو کھانے کی اجازت ہے وہ اس کے گوشت سے فائدہ اٹھانے کے لئے شکار کرنا ہے۔ اور جس کو کھانا جائز نہیں ہے وہ اس کی کھال ، بالوں اور ہڈیوں سے فائدہ اٹھانے یا اس کے نقصان کو ختم کرنے کے لئے شکار کرنا ہے۔

( بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع، ج5، ص61، دارالکتب العلمیہ بیروت)

سیدی اعلحضرت امامِ اہلسنَّت مولانا شاہ امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں: کسی جانور کا شِکار اگر غِذا یا دَوا یا دَفع ِایذا یا تجارت کی غرض سے ہو جائز ہے اور جو تفریح کے لئے ہو جس طرح آج کل رائج ہے اور اسی لئے اسے شکار کھیلنا کہتے اور کھیل سمجھتے ہیں اور وہ جو اپنے کھانے کے لئے بازار سے کوئی چیز خرید کر لانا عار جانیں،  دُھوپ اور لُو میں خاک اُڑاتے ہیں، یہ مطلقاً حرام ہے۔

(فتاویٰ رضویہ، ج20، ص343، رضا فائونڈیشن لاہور)

صدر الشریعہ بدر الطریقہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں کہ: شکار کرنا ایک مباح فعل ہے مگر حرم یا احرام میں   خشکی کاجانور شکار کرنا حرام ہے اسی طرح اگر شکار محض لھو کے طور پر ہو تو وہ مباح نہیں۔ اکثر اس فعل سے مقصود ہی کھیل اور تفریح ہوتی ہے اسی لیے عرف عام میں   شکار کھیلنا بولا جاتا ہے جتنا وقت اور پیسہ شکار میں خرچ کیا جاتا ہے اگر اس سے بہت کم داموں میں گھر بیٹھے ان لوگوں کو وہ جانور مل جایا کرے تو ہرگز راضی نہ ہوں   گے وہ یہی چاہیں گے کہ جو کچھ ہو ہم تو خود اپنے ہاتھ سے شکار کریں گے اس سے معلوم ہوا کہ ان کا مقصد کھیل اور لھو ہی ہے، شکار کرنا جائز و مباح اُس وقت ہے کہ اس کا صحیح مقصد ہو مثلاً کھانا یا بیچنا یا دوست احباب کو ہدیہ کرنا یا اُس کے چمڑے کو کام میں لانا یا اُس جانور سے اذیت کا اندیشہ ہے اس لیے قتل کرنا وغیرہ ذلک۔

(بہار شریعت، حصہ17، ص684 مکتبة المدینہ کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ وَ صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

کتبہ محمد عمیر علی حسینی مدنی غفر لہ

نظر ثانی ابو احمد مفتی محمد انس رضا قادری صاحب متعنا اللہ بطول حیاتہ

اپنا تبصرہ بھیجیں