انگوٹھی کے نگینے کو کس طرف رکھنا چاہیے

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین مسئلہ ذیل میں کہ انگوٹھی کے نگینے کو کس طرف رکھنا چاہیے ؟ 

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب۔

انگوٹھی پہننا اُنھیں کے لیے سنت ہے جن کو مُہر کرنے ( یعنی اِسٹامپ STAMP لگانے ) کی حاجت ہوتی ہے، جیسے سلطان و قاضی اور وہ مفتیانِ کرام جو فتوے پر ( انگوٹھی سے ) مُہر کرتے ( یعنی اِسٹامپ لگاتے ) ہیں، ان کے علاوہ دوسروں کے لیے جِن کو مُہر کرنے کی حاجت نہ ہو سنت نہیں البتہ پہننا جائز ہے۔ ہمارے زمانے میں انگوٹھی سے مُہر کرنے کا عرف ( یعنی معمول و رَواج ) نہیں رہا، بلکہ اس کام کے لئے ’’ اِسٹام ‘‘ بنوائی جاتی ہے، لہٰذا جن کو مُہر نہ لگانی ہو اُن قاضی وغیرہ کے لئے بھی انگوٹھی پہننا سنت نہ رہا، مرد کو چاہیے کہ انگوٹھی کا نگینہ ہتھیلی کی جانب اور عورت نگینہ ہاتھ کی پُشت ( یعنی ہاتھ کی پیٹھ ) کی طرف رکھے۔

صحیح بخاری و مسلم میں ہے: ” عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَبِسَ خَاتَمَ فِضَّةٍ فِي يَمِينِهِ فِيهِ فَصٌّ حَبَشِيٌّ كَانَ يَجْعَلُ فَصَّهُ مِمَّا يَلِي كَفَّهُ “. ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلَّم نے دہنے ہاتھ میں چاندی کی انگوٹھی پہنی اور اس کا نگینہ حبشی ساخت کا تھا اور نگینہ ہتھیلی کی جانب رکھتے۔ 

(صحیح مسلم، كتاب اللباس والزينة، باب في خاتم الورق فصه حبشي، جلد 03، صفحہ 1658، مطبوعہ دارِ احیاء التراث العربی بیروت )۔

فتاویٰ عالمگیری میں ہے: ” إنَّمَا يُسَنُّ التَّخَتُّمُ بِالْفِضَّةِ مِمَّنْ يَحْتَاجُ إلَى الْخَتْمِ كَسُلْطَانٍ أَوْ قَاضٍ أَوْ نَحْوِهِ وَعِنْدَ عَدَمِ الْحَاجَةِ التَّرْكُ أَفْضَلُ، كَذَا فِي التُّمُرْتَاشِيِّ.۔۔۔۔۔ وَإِذَا تَخَتَّمَ يَنْبَغِي أَنْ يَجْعَلَ الْفَصَّ إلَى بَطْنِ كَفِّهِ لَا إلَى ظَهْرِهِ بِخِلَافِ النِّسْوَانِ؛ لِأَنَّهُنَّ يَفْعَلْنَ لِلتَّزْيِينِ وَالرِّجَالُ لِلْحَاجَةِ إلَى التَّخَتُّمِ “. ترجمہ: انگوٹھی اُنھیں کے لیے سنت ہے جن کو مُہر کرنے کی حاجت ہوتی ہے، جیسے سلطان و قاضی اور ان جیسے دیگر حضرات، اور حاجت نہ ہو تو ترک کرنا افضل ہے۔ اسی طرح تمرتاشی میں بھی پے۔۔۔۔۔ جب ( مرد ) انگوٹھی پہنے تو چاہیے یہ کہ انگوٹھی کا نگینہ ہتھیلی کی جانب ہو نہ کہ پیٹھ کی طرف، برخلاف عورتوں کے؛ کیونکہ وہ ( انگوٹھیاں ) زینت کے لئے پہنتی ہیں، اور مرد انگوٹھی حاجت کے وقت پہنتے ہیں۔

( الفتاویٰ الھندیۃ، جلد 05، صفحہ 533، مطبوعہ دار الفکر بیروت )

میرے پیرو مرشد شیخ طریقت امیر اہلسنت حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطار قادری رضوی ضیائی دامت برکاتہم العالیہ اپنے رسالہ 163 مدنی پھول میں ارشاد فرماتے ہیں: ” فِی زمانہ انگوٹھی سے مُہر کرنے کا عرف(یعنی معمول و رَواج) نہیں رہا،بلکہ اس کام کے لئے ’’ اِسٹام ‘‘ بنوائی جاتی ہے ،لہٰذا جن کو مُہر نہ لگانی ہواُن قاضی وغیرہ کے لئے بھی انگوٹھی پہننا سنت نہ رہا “.

( 163 مدنی پھول، صفحہ 31، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی ).

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

              کتبہ            

 سگِ عطار محمد رئیس عطاری بن فلک شیر غفرلہ

ابو احمد مفتی انس رضا قادری دامت برکاتہم العالیہ

( مورخہ 26 ذوالحجۃ الحرام 1442ھ بمطابق 06 اگست 2021ء بروز جمعہ )۔

اپنا تبصرہ بھیجیں