کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ مچھلی کے علاوہ دریا کے بقیہ جانور کھانا حلال ہے یا نہیں؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
مچھلی کے علاؤہ دریا کے دیگر جانور کھانا حرام ہیں، کیونکہ سرکارِ دو عالم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے سمندری جانوروں میں سے صرف مچھلی کے کھانے کی اجازت مرحمت فرمائی ہے اور فقہاء کرام مچھلی کے علاؤہ دیگر دریائی جانوروں کے کھانے سے منع فرمایا ہے۔
سنن ابن ماجہ میں حضرت سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’احلت لنا میتتان و دمان، فاما المیتتان فالحوت والجراد واما الدمان فالکبد والطحال‘‘
ترجمہ: ہمارے لیے دو مرے ہوئے جانور اور دو خون حلال کیے گئے ہیں، دو مردے مچھلی اور ٹڈی ہیں اور دو خون کلیجی اور تلی ہیں
(سنن ابن ماجہ، ابواب الاطعمہ، الکبد والطحال، صفحہ 238، مطبوعہ کراچی)
بنایہ میں ہے کہ(قال: ولا يؤكل من حيوان الماء إلا السمك) أي قال القدوري – رحمه الله في “مختصره”: وقال الكرخي رحمه الله كره أصحابنا كل ما في البحر إلا السمك خاصة فإنه حلال أكله إلا ما طفى منه فإنهم كرهوه
ترجمہ: پانی کے جانور کو مچھلی کے سوا نہیں کھایا جاتا) صاحب قدوری رحمۃ اللّٰہ علیہ اپنی مختصر القدوری میں فرماتے ہیں علامہ کرخی رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہمارے اصحاب نے سمندر کے تمام جانوروں کو مکروہ قرار دیا ہے سوائے خاص طور پر مچھلی کے، کیونکہ اسے کھانے کی اجازت ہے سوائے اس کے جو خود بخود مر کر الٹی ہو جائے، کیونکہ فقہاء نے اسے مکروہ قرار دیا ہے۔
(البنایہ شرح الھدایہ، ج11، ص604، دارالکتب العلمیہ بیروت)
بدائع الصنائع فی ترتیب میں ہے: أما الذي يعيش في البحر فجميع ما في البحر من الحيوان محرم الأكل إلا السمك خاصة فإنه يحل أكله إلا ما طفا منه
ترجمہ:بہرحال وہ تمام حیوان جو سمندر میں رہتے ہیں، ان کا کھانا حرام ہے سوائے مچھلی کے خصوصی طور پر پس اس کا کھانا حلال ہے مگر جو اس میں سے خود بخود مر کر پانی کی سطح پر تیر پڑے۔
(بدائع الصنائع، ج5، ص35، دارالکتب العلمیہ بیروت)
صدرالشریعہ بدر الطریقہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں: “پانی کے جانوروں میں صرف مچھلی حلال ہے۔ جو مچھلی پانی میں مر کر تیر گئی یعنی جو بغیر مارے اپنے آپ مر کر پانی کی سطح پر اولٹ گئی وہ حرام ہے، مچھلی کو مارا اور وہ مر کر اولٹی تیرنے لگی، یہ حرام نہیں۔
بہارشریعت، جلد 3، صفحہ 324، مکتبۃ المدینہ کراچی)
بعض لوگوں یہ گمان کرتے ہیں کہ تمام دریائی جانور حلال ہیں اور وہ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں کہ “عن جابر بن عبدالله إنَّ رسولَ اللهِ ﷺ سُئِلَ عن البَحرِ، فقال: هو الطَّهورُ ماؤُه، الحَلالُ مَيتَتُه”.ترجمہ:- حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللّٰہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے سمندر کے بارے میں سوال پوچھا گیا، آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سمندر کا پانی پاک ہے اور اس کا مردار حلال ہے۔
(سنن الدارقطني ٧٠ )
مذکورہ حدیث کے بارے میں علامہ علاء الدین ابوبکر بن مسعود کاسانی حنفی رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں کہ: “والمراد من قول النبي عليه الصلاة والسلام والحل ميتته السمك خاصة بدليل قوله صلى الله عليه وسلم «أحلت لنا ميتتان ودمان: الميتتان السمك والجراد، والدمان الكبد والطحال» فسر عليه الصلاة والسلام بالسمك والجراد فدل أن المراد منها السمك ويحمل الحديث على السمك”.
ترجمہ:رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے فرمان “الحل میتته” سے مراد مچھلی ہے دلیل سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول ہے کہ “ہمارے لیے دو مرے ہوئے جانور اور دو خون حلال کیے گئے ہیں، دو مردے مچھلی اور ٹڈی ہیں اور دو خون کلیجی اور تلی ہیں” رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے میتته کی تفسیر مچھلی اور ٹڈی کے ساتھ فرمائی ہے پس یہ دلالت کرتی ہے اس بات پر کہ حدیث میں میتته سے مراد مچھلی ہے اور حدیث کو مچھلی پر محمول کیا جائے گا۔
(بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع، ج5، ص36، دارالکتب العلمیہ بیروت)
وَاللہُ اَعْلَمُ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ وَ صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کتبہ: محمد عمیر علی حسینی مدنی غفر لہ
نظر ثانی ابو احمد مفتی محمد انس رضا قادری صاحب متعنا اللہ بطول حیاتہ