قامت بیٹھ کر سننی چاہیے یا کھڑے ہوکر

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ  اقامت بیٹھ کر سننی چاہیے یا کھڑے ہوکر ؟ اگر بیٹھ کر سنیں تو کس وقت کھڑا ہونا چاہیے؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

فقہ حنفی کی روشنی میں حکم یہ ہے کہ جب امام، مسجد میں مصلے پر یا اسکے قریب موجود ہو اور مقتدی بھی مسجد میں حاضر ہوں، اور اقامت کہنے والا شخص خود امام نہ ہو تو سب کے لۓ حکم یہ ہے کہ وہ اقامت بیٹھ کر سنیں اور حی الصلاۃ یا حی علی الفلاح کے وقت کھڑے ہوں، اور یہ طریقہ سنت مستحبہ ہے۔

 کھڑے ہو کر اقامت سننا مکروہ ہے، یہاں تک کہ اگر کوئی شخص مسجد میں ایسے وقت آیا کہ تکبیر ہو رہی ہو تو اس کے لیے بھی یہی حکم ہے کہ وہ بیٹھ جائے اور حی الصلاۃ یا حی علی الفلاح کے وقت کھڑا ہو۔

اوپر وہ صورت بیان ہوئی ہے کہ امام مسجد میں موجود ہو لیکن اگر امام، مسجد میں  موجود نہ ہو تو موذن جب تک اسے آتا نہ دیکھے تکبیر نہ کہے اور نماز بھی جب تک اسے دیکھ نہ لیں کھڑے نہ ہوں،   پھر جب امام آئے اور تکبیر شروع ہو جائے تو نمازیوں کے کھڑے ہونے کی دو صورتیں ہیں،

 پہلی صورت یہ ہے کہ اگر امام صفوں کی طرف سے مسجد میں داخل ہو، تو جس صف سے امام گزرتا جائے وہ صف کھڑی ہوتی جائے،

 دوسری صورت یہ ہے کہ اگر سامنے سے آئے تو اسے دیکھتے ہی سب کھڑے ہو جائیں،

 اور اگر امام خود ہی تکبیر کہے تو جب تک پوری تکبیر سے فارغ نہ ہو لے مقتدی بالکل کھڑے نہ ہوں بلکہ اگر اس نے تکبیر مسجد سے باہر کہی، تو فارغ ہونے پر بھی کھڑے نہ ہو جب امام مسجد میں داخل ہو اس وقت کھڑے ہوں۔

علامہ ابو بکر بن مسعود کاسانی علیہ الرحمہ بدائع الصنائع میں فرماتے ہیں:

”والجملۃ فیہ ان المؤذن اذا قال حی علی الفلاح فان کا ن الامام معھم فی المسجد یستحب للقوم ان یقوم فی الصف“

یعنی خلاصہ کلام یہ کہ امام قوم کے ساتھ مسجد میں ہو تو لوگوں کو اس وقت کھڑا ہو نا مستحب ہے جب مؤذن حَیَّ عَلَی الْفَلَاح کہے۔

( بدائع الصنائع،ج1 ،ص467)

 حاشیۂ شلبی علی التبیین میں ہے:

”قال فی الوجیز: والسنۃ ان یقوم الامام و القوم اذا قال المؤذن حی علی الفلاح اھ۔ و مثلہ فی المبتغی“

 یعنی وجیز میں ہے: سنّت یہ ہے کہ امام اور قوم اس وقت کھڑے ہوں جب موذن حَیَّ عَلَی الْفَلَاح کہے۔ اسی بات کے مثل ”المبتغی“ میں ہے۔

(حاشیہ شلبی علی تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق،ج1 ،ص283)

کتاب مَا لَا بُدَّ مِنْہُ میں ہے: ”طریق خواندن نماز بر وجہ سنت آنست کہ اذان گفتہ شود واقامت ونزد حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃ امام برخیزد (ومقتدیاں نیز بر خیزد)۔“

نماز پڑھنے کا سنّت طریقہ یہ ہے کہ اذان و اقامت کہی جائے اور اقامت کہنے والے کے حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃ کے ساتھ امام کھڑا ہو(اور مقتدی بھی)۔

(ما لا بد منہ فارسی، ص28)

فتاوی ہندیہ میں ہے: یقوم الامام والقوم اذاقال المؤذن حی علی الفلاح عند علمائنا الثلثۃ ھو الصحیح۔

ترجمہ: ہمارے تینوں ائمہ کے نزدیک جب اقامت کہنے والا حی علی الفلاح کہے تو اس وقت امام اور تمام نمازی کھڑے ہوں اور یہی صحیح ہے۔

 (فتاوٰی ہندیہ ،الفصل الثانی فی کلمات الاذان والاقامۃ الخ،    مطبوعہ نورانی کتب خانہ پشاور    ۱/۵۷)

عمدۃ المحققین حضرت علامہ مفتی محمد حبیب اللہ نعیمی بھاگلپوری علیہ رحمۃ اللہ القَوی فرماتے ہیں:

”جب اقامت شروع کرنے سے پہلے مقتدی مسجد میں حاضر ہوں اور امام بھی اپنے مصلے پر یا اس کے قریب میں موجود ہو اور اقامت کہنے والا شخص خود امام نہ ہو تو اس صورت میں سب کو حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃ یا حَیَّ عَلَی الْفَلَاح پر کھڑا ہونا چاہئے، یہی مسنون و مستحب ہے۔ اس صورت میں ابتدائے اقامت سے کھڑے ہونے کو حنفی مسلک میں ہمارے فقہائے کرام نے مکروہ تحریر فرمایا ہے۔“

(حبیب الفتاویٰ، ص134)

اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:

اقول ولاتعارض عندی بین قول الوقایۃ واتباعھا یقومون عند حی الصلاۃ والمحیط والمضمرات ومن معھما عند حی علی الفلاح فانا اذاحملنا الاول علی الانتھاء والاٰخر علی الابتداء اتحد القولان، ای یقومون حین یتم المؤذن حی علی الصلاۃ ویأتی علی الفلاح وھذا مایعطیہ قول المضمرات یقوم اذابلغ المؤذن حی علی الفلاح ولعل ھذا اولی ممافی مجمع الانھر من قولہ وفی الوقایۃ ویقوم الامام والقوم عند حی علی الصلاۃ ای قبیلہ۔

اقول: صاحبِ وقایہ اور ان کے متبعین _حی علی الصلاۃ_ کے موقعہ پر کھڑا ہونے کا قول کرتے ہیں اور صاحبِ محیط،مضمرات اور ان کی جماعت _حی علی الفلاح_ کے وقت کھڑا ہونے کا قول کرتے ہیں میرے نزدیک ان میں کوئی تعارض نہیں اس لئے کہ جب ہم پہلے قول کو انتہا اور دوسرے کو ابتدا پر محمول کریں تو دونوں قولوں میں اتحاد حاصل ہوجاتا ہے یعنی جب مؤذن حی علی الصلاۃ_ پُورا کرکے حی علی الفلاح کہے تو کھڑے ہوں اور اس کی تائید مضمرات کے ان الفاظ سے ہوتی ہے _اس وقت کھڑا ہو جب مؤذن _حی علی الفلاح_ پر پہنچے اور یہ اس سے بہتر ہے جو مجمع الانہر میں اس کا قول ہے: وقایہ میں ہے کہ امام اور نمازی _حی علی الصلاۃ_ کے وقت یعنی اس سے تھوڑا سا پہلے کھڑے ہوں اھ۔

(فتاویٰ رضویہ ،ج5،ص377۔382)

 فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

 اذادخل الرجل عندالاقامۃ یکرہ لہ الانتظارقائماً ولکن یقعد ثم یقوم اذابلغ المؤذن قولہ __حی علی الفلاح۔ ترجمہ: جب کوئی نمازی تکبیر کے وقت آئے تو وہ بیٹھ جائے کیونکہ کھڑے ہوکر انتظار کرنا مکروہ ہے پھر جب مؤذّن _حی علی الفلاح_ کہے تو اس وقت کھڑا ہو۔

 ( فتاوٰی ہندیہ، الفصل الثانی فی کلمات الاذان والاقامۃ الخ،  مطبوعہ نورانی کتب خانہ پشاور،  ۱/۵۷)

اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں۔

یہ اُس صورت میں ہے کہ امام بھی وقتِ تکبیر مسجد میں ہو،اور اگروہ حاضر نہیں تو مؤذن جب تک اُسے آتا نہ دیکھتے تکبیر نہ کہے نہ اُس وقت تک کوئی کھڑا ہو:

 لقولہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم لاتقوموا حتی ترونی۔ (کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: تم نہ کھڑے ہواکرو یہاں تک کہ مجھے دیکھ لو۔)

مزید ارشاد فرماتے ہیں:

پھر جب امام آئے اور تکبیر شروع ہو اس وقت دو۲ صورتیں ہیں اگر امام صفوں کی طرف سے داخل مسجد ہوتو جس صفت سے گزرتا جائے وہی صف کھڑی ہوتی جائے اور اگر سامنے سے آئے تو اُسے دیکھتے ہی سب کھڑے ہوجائیں اور اگر خود امام ہی تکبیر کہے تو جب تک پُوری تکبیر سے فارغ نہ ہولے مقتدی اصلاً کھڑے نہ ہوں بلکہ اگر اس نے تکبیر مسجد سے باہر کہی تو فراغ پر بھی کھڑے نہ ہوں جب وہ مسجد میں قدم رکھے اُس وقت قیام کریں۔

(فتاویٰ رضویہ ،ج5،ص377۔382)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

فامااذاکان الامام خارج المسجد فان دخل المسجد من قبل الصفون فکلماجاوز صفا قام ذلک الصف والیہ مال شمس الائمۃ الحلوانی والسرخسی وشیخ الاسلام خواھرزادہ وان کان الامام دخل المسجد من قدامھم یقومون کماراؤا الامام وان کان المؤذن والامام واحدافان اقام فی المسجد فالقوم لایقومون مالم یفرغ عن الاقامۃ وان اقام خارج المسجد فمشایخنا اتفقوا علی انھم لایقومون مالم یدخل الامام المسجد ویکبر الامام قبیل قولہ قدقامت الصلاۃ قال الشیخ الامام شمس الائمۃ الحلوانی وھو الصحیح ھکذا فی المحیط ۔

ترجمہ: اگر امام مسجد سے باہر ہو اگر وہ صفوں کی جانب سے مسجد میں داخل ہوتوجس صف سے وہ گزرے وہ صف کھڑی ہوجائے، شمس الائمہ حلوانی، سرخسی، شیخ الاسلام خواہر زادہ اسی طرف گئے ہیں، اور اگر امام اُن کے سامنے سے مسجد میں داخل ہوتواُسے دیکھتے ہی تمام مقتدی کھڑے ہوجائیں،اگر مؤذن اور امام ایک ہی ہے پس اگر اس نے مسجدکے اندرہی تکبیر کہی تو قوم اس وقت تک کھڑی نہ ہو جب تک وہ تکبیر سے فارغ نہ ہوجائے اور اگر اس نے خارج ازمسجد تکبیر کہی تو ہمارے تمام مشائخ اس پر متفق ہیں کہ لوگ اس وقت تک کھڑے نہ ہوں جب تک امام مسجد میں داخل نہ ہواور امام  قدقامت الصلاۃ کے تھوڑا پہلے تکبیر تحریمہ کہے امام شمس الائمہ حلوانی کہتے ہیں کہ یہی صحیح ہے، محیط میں اسی طرح ہے۔

 ( فتاوٰی ہندیۃ، الفصل الثانی فی کلمات الاذن والاقامۃ الخ، مطبوعہ نورانی کتب خانہ پشاور)

والله تعالی اعلم بالصواب۔

کتبه: ندیم عطاری مدنی حنفی۔

نظر ثانی: ابو احمد مفتی انس رضا قادری

مورخہ 01 محرم الحرام 1443ھ بمطابق 10 اگست 2021ء بروز منگل

اپنا تبصرہ بھیجیں