سوال:اگریہ حدیث پاک ہے کہ جوعورت اپنے ولی کی اجازت کے بغیرنکاح کرے اسکانکاح باطل ہے توپھرجوعورت گھرسے بھاگ کرعدالتی نکاح کرتی ہے اسکانکاح صحیح کیوں ماناجاتاہے؟
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب
احناف کے مفتی بہ قول کیمطابق جوعورت بغیرشرعی ولی(جیسے باپ ورنہ داداورنہ بھائی ورنہ چچاوغیرہ)کی اجازت کے اپنانکاح کفو(ہم پلہ)میں کرےاسکانکاح نافذہے ورنہ باطل ہے کہ قران پاک کے خاص(علمِ اصولِ فقہ کی ایک اصطلاح)اوردیگراحادیث سے عورت کانکاح کا اہل ہوناثابت ہے اورپیش کی گئی حدیث پاک میں اضطراب ہے،راویہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھاکااپناعمل اسکے خلاف ہے یایہ حدیث غیرکفوکے بارے میں ہے۔ہاں فسادِ زمان اوراولیاء کے ضرر کی وجہ سے غیرکفو میں ایسا نکاح باطل ہے۔
قران پاک میں ہے: حتی تنکح زوجاغیرہ۔ترجمہ:یہاں تک کہ عورت کسی اورسے شادی کرے۔(القران،البقرہ:230)
حدیث پاک میں ہے:أن النبي ﷺ قال: الأيم أحق بنفسها من وليها۔ترجمہ:غیر شادی شدہ عورت کو ولی سے زیادہ اپناحق ہے۔(مسلم شریف،کتاب النکاح،ج4،ص141،حدیث:1421، ترکی)
فتح القدیر میں ہے:قوله تعالى ۔۔۔لأنه حقيقة إسناد الفعل إلى الفاعل. وأما الحديث المذكور وما بمعناه ۔۔۔ فمعارضة بقوله ﷺرواه مسلم۔۔۔ يترجح هذا بقوة السند وعدم الاختلاف في صحته، بخلاف الحديثين فإنهما: إما ضعيفان: فحديث «لا نكاح إلا بولي» مضطرب في إسناده في وصله وانقطاعه وإرساله۔۔۔ وأما ما ضعفه به من أن عائشة رضي الله عنها راويته عملت بخلافه على ما في الموطإ ۔۔۔ ويخص حديث عائشة بمن نكحت غير الكفء، والمراد بالباطل حقيقته۔(کتاب النکاح،ج3،ص260،بیروت)
درمختاروشامی میں ہے:‘‘(بعدم جوازه أصلا) وهو المختار للفتوى (لفساد الزمان)’’لان وجہ عدم الصحۃ علی ھذہ الروایۃ دفع الضرر عن الاولیاء۔ (شامی،کتاب النکا ح،باب الولی،جلد3،ص57،بیروت)
واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کتبـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــہ
تیموراحمدصدیقی
19جمادی الثانی 1445ھ/01جنوری 2024 ء