سجدہ تلاوت میں قہقہہ لگانے سے وضو اور سجدہ کا حکم

سجدہ تلاوت میں قہقہہ لگانے سے وضو اور سجدہ کا حکم

کیا فرماتے علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ سجدہ تلاوت میں اگر قہقہہ لگا کر ہنسا جائے تو نماز اور وضو کا کیا حکم ہے؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

سوال میں پوچھی گئی صورت کے مطابق وضوء نہیں ٹوٹے گا جبکہ سجدہ تلاوت فاسد ہو جائے گا اور قہقہہ سے وضوء ٹوٹنے یا نہ ٹوٹنے کے بارے میں تفصیل یہ ہے کہ اگر رکوع و سجود والی نماز میں ہو تو ناقضِ وضوء ہے ورنہ وضوء نہیں ٹوٹے گا جبکہ نماز فاسد ہو جائے گی ، کہ قہقہہ کلام کے مشابہ ہے کیونکہ یہ ایسی آواز ہے جو کلام کے مخرج سے نکلی ہے گویا کہ کلام ہی ہے ،اور کلام نماز کو مشتبہ کر دیتا ہے ۔

فتاوی ہندیہ میں ہے :

ﻭاﻟﻘﻬﻘﻬﺔ ﻓﻲ ﻛﻞ ﺻﻼﺓ ﻓﻴﻬﺎ ﺭﻛﻮﻉ ﻭﺳﺠﻮﺩ ﺗﻨﻘﺾ اﻟﺼﻼﺓ ﻭاﻟﻮﺿﻮء ﻋﻨﺪﻧﺎ ﻛﺬا ﻓﻲ اﻟﻤﺤﻴﻂ ﺳﻮاء ﻛﺎﻧﺖ ﻋﻤﺪا ﺃﻭ ﻧﺴﻴﺎﻧﺎ ﻛﺬا ﻓﻲ اﻟﺨﻼﺻﺔ ﻭﻻ ﺗﻨﻘﺾ اﻟﻄﻬﺎﺭﺓ ﺧﺎﺭﺝ اﻟﺼﻼﺓ ﻭﻟﻮ ﻗﻬﻘﻪ ﻓﻲ ﺳﺠﺪﺓ اﻟﺘﻼﻭﺓ ﺃﻭ ﻓﻲ ﺻﻼﺓ اﻟﺠﻨﺎﺯﺓ ﺗﺒﻄﻞ ﻣﺎ ﻛﺎﻥ ﻓﻴﻬﺎ ﻭﻻ ﺗﻨﻘﺾ اﻟﻄﻬﺎﺭﺓ ﻛﺬا ﻓﻲ ﻓﺘﺎﻭﻯ ﻗﺎﺿﻲ ﺧﺎﻥ ۔

ترجمہ : یعنی ہمارے نزدیک قہقہہ ہر رکوع و سجود والی نماز میں ناقضِ وضوء اور ناقضِ نماز ہے ایسے ہی محیط میں ہے ، چاہے جان بوجھ کر لگائے یا بھول کر ، اسی طرح خلاصہ میں ہے ،اور نماز سے باہر طہارت یعنی وضوء نہیں توڑے گا اور اگر کسی نے قہقہہ سجدہ ویا نمازِ جنازہ میں لگایا تو یہ(سجدہ و نماز جنازہ) باطل ہو جائیں گے اور طہارت نہیں ٹوٹے گا ایسے ہی فتاوی قاضی خان میں ۔

(فتاوی ہندیہ ، الفصل الخامس فی نواقض الوضوء ، جلد 1 ، صفحہ 12 ، دار الکتب العلمیہ بیروت)

ابنِ مازۃ أبو المعالی برہان الدین محمود بن احمد رحمہ اللہ المحیط البرہانی میں لکھتے ہیں:

بأن القهقهة في كل صلاة فيها ركوع وسجود تنقض الصلاة والوضوء عندنا لحديث خالد الجهني ،،،والقهقهة خارج الصلاة لا تنقض الوضوء،،، وكذلك القهقهة في صلاة الجنازة وسجدة التلاوة لا تنقض الوضوء؛ لأن انتقاض الوضوء بالقهقهة عرف بالسنة، والسنة وردت في صلاة مطلقة، وهذه ليست بصلاة مطلقا، فيعمل فيها بالقياس؛ ولكن تبطل صلاة الجنازة وسجدة التلاوة ۔

ترجمہ : بأیں طور پر قہقہہ ہمارے نزدیک ہر رکوع و سجود والی نماز میں ناقضِ وضوء اور ناقضِ نماز ہے حضرت خالد الجهني رضی اللہ عنہ والی حدیث کی وجہ سے ، اور نماز سے باہر ناقضِ وضوء نہیں ہے اور اسی طرح سجدہ تلاوت اور نماز جنازہ میں بھی ناقضِ وضوء نہیں ہے کیونکہ قہقہہ کا ناقضِ وضوء ہونا سنت یعنی حدیث سے ثابت اور حدیث مطلق نماز کے بارے میں وارد ہوئی ہے ، اور یہ مطلق نماز نہیں ہے ، تو اس میں قیاس پر عمل کیا جائے گا ، لیکن نمازِ جنازہ اور سجدہ تلاوت باطل ہو جائیں گے ،

(المحیط البرہانی ، الفصل الثانی فی بیان ما یوجب الوضوء ،،،،جلد 1 ، صفحہ 69، 70 ،دار الکتب العلمیہ بیروت)

المحیط البرہانی میں ہے :

ولكنها تفسد الصلاة؛ لأن القهقهة تشبه الكلام لأنه صوت خارج من مخرج الكلام، فكان شبه الكلام. الكلام على الحقيقة يشبه الصلاة،

ترجمہ : اور لیکن نماز (نماز جنازہ و سجدہ ) فاسد ہو جائے گی کیونکہ قہقہہ کلام کے مشابہ ہے کیونکہ یہ ایسی آواز ہے جو کلام کے مخرج سے نکلی ہے تو یہ کلام کے مشابہ ہو گیا ، اور کلام در حقیقت نماز کو مشتبہ کر دیتا ہے ۔

(المحیط البرہانی ، الفصل فی الجنائز، جلد 2 ،صفحہ 196 ،دار الکتب العلمیہ بیروت)

بہار شریعت میں ہے :

بالغ کا قہقہہ یعنی اتنی آواز سے ہنسی کہ آس پاس والے سنیں اگر جاگتے میں رکوع سجدہ والی نماز میں ہو وُضو ٹوٹ جائے گا اور نماز فاسد ہو جائے گی۔ اگر نماز کے اندر سوتے میں یا نماز ِجنازہ یا سجدۂ تلاوت میں قہقہہ لگایا تو وُضو نہیں جائے گا وہ نماز یا سجدہ فاسد ہے۔

(بہار شریعت ، حصہ دوم ، وُضو توڑنے والی چیزوں کا بیان، جلد 1 ،صفحہ 311، مکتبۃ المدینہ کراچی)

واللہ اعلم و رسولہ اعلم عزوجل و صلی اللہ علیہ وسلم

کتبہ

ارشاد حسین عفی عنہ

11/05/2023

وال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین مسئلہ ذیل میں کہ کسی اسلامی بھائی نے منت مانی کہ فلاں کام ہو جانے پہ محفل کرواؤں گا، مراد پُوری ہونے کی صورت میں اُتنی ہی مالیت کسی غریب کو دینا یا مدرسے کو دینا یا مسجد کی تعمیر میں دے دینا کیسا ہے ؟

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

اگر کسی نے منت مانی کہ فلاں کام ہو جانے پہ محفل کرواؤں گا تو مراد پُوری ہونے کی صورت میں اُتنی ہی مالیت کسی غریب کو دینا یا مدرسے کو دینا یا مسجد کی تعمیر میں دینا جائز ہے کیونکہ یہ منتِ واجبہ نہیں، اور جو منت واجبہ نہ ہو اسے پورا کرنا لازم نہیں ہوتا، مگر بہتر ہے کہ جو منت مانی ہے اسے ادا کر دے۔

بدا الصنائع اور در مختار شرح تنویر الابصار میں ہے: “ (ولم يلزم) الناذر (ما ليس من جنسه فرض كعيادة مريض۔۔۔۔ الخ)۔“

ترجمہ: اگر منت ماننے والے نے ایسی منت مانی جو واجب کی جنس سے نہ ہو تو وہ اس پر لازم نہیں ہو گی، جیسے مریض کے عیادت کرنے کی منت ماننا۔۔۔.. الخ. ( الدرالمختار شرح تنویر الابصار، صفحہ 284، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ).

امامِ اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: ” اگر یوں ہو کہ طالب ممبری کہے: میں ﷲ کے لئے منت مانتا ہوں کہ اگر ممبر ہوگیا، تو دو ہزار روپے فلاں مسجد کی تعمیر میں دوں گا، تو یہ بھی اس کے اختیار پر رہے گا کہ تعمیرِ مسجد کی نذر صحیح ولازم نہیں۔ “ ( فتاویٰ رضویہ، جلد 16، صفحہ 478، رضا فاونڈیشن، لاہور)۔

بہار شریعت میں ہے: “ مسجد میں چراغ جلانے یا طاق بھرنے یا فلاں بزرگ کے مزار پر چادر چڑھانے یا گیارھویں کی نیاز دِلانے یا غوث اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کا توشہ یا شاہ عبدالحق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا توشہ کرنے یا حضرت جلال بخاری کا کونڈا کرنے یا محرم کی نیاز یا شربت یا سبیل لگانے یا میلاد شریف کرنے کی منّت مانی تویہ شرعی منّت نہیں مگر یہ کام منع نہیں ہیں کرے تو اچھا ہے۔ “ ( بہارِ شریعت، جلد 02، حصہ 09، صفحہ 316، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی ).

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

کتبہ

سگِ عطار ابو احمد محمد رئیس عطاری بن فلک شیر غفرلہ

نظرِ ثانی: ابو احمد مفتی انس رضا قادری دامت برکاتہم العالیہ

( مورخہ 24 شوال المکرم 1444ھ بمطابق 15 مئی 2023ء بروز پیر )۔

اپنا تبصرہ بھیجیں