میدانِ عرفات میں حج کا احرام باندھنا

میدانِ عرفات میں حج کا احرام باندھنا

کیا فرماتے علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کسی نے حدودِ حرم میں اقامت کی نیت کی ہے اور وقوفِ منٰی کئے بغیر میدانِ عرفات سے احرام باندھ کر حج کیا تو کیا یہ حج درست ہو گیا ؟ اور اس پر کوئی دم تو لازم نہیں ؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

صورتِ مسئولہ میں وقوفِ منی سنت مؤکدہ ہے جس کا ترک اساءت ہے ،لہذا اس کا حج ادا ہو گیا ، البتہ مقیم شخص احرام میں مکی کے حکم ہے اور مکی کو حج کے لئے حدودِ حرم میں احرام باندھنا واجب ہے جبکہ میدانِ عرفات حدودِ حرم سے باہر ہے ، لہذا اس پر میدانِ عرفات سے احرام باندھنے پر دم واجب ہو گیا اور توبہ بھی لازم کہ واجب کو ترک کیا ہے ۔

فتاوی شامی میں ہے:

” المبيت بها فإنه سنة كما في المحيط“

ترجمہ : (نو تاریخ کی ) رات منی میں گزارنا سنت جیسا کہ ٫محیط، میں ہے ۔ (فتاوی شامی مع در مختار ،فصل فی الاحرام ،جلد 2 ،صفحہ 503،دار الکتب العلمیہ ،بیروت)

المسالک فی المناسک میں ہے :

”و ان بات بمکۃ لیلۃ عرفۃ و صلی بھا الفجر ،ثم غدا منھا الی عرفات و مر علی منی جاز ذلک ،ولکنہ مسئ فیہ ،لأن الارواح الی منی یوم الترویۃ سنۃ و ترک السنۃ مکروہ الا للضرورۃ “

ترجمہ : یعنی اگر عرفہ کی رات مکہ میں گزاری اور وہیں فجر پڑھی ، پھر وہاں سے عرفات روانہ ہوا اور منی سے گزرا تو اسے وہ جائز ہوا لیکن وہ اس میں اساءت کا مرتکب ہوا ، کیونکہ آٹھ ذوالحجہ کو منی جانا سنت ہے اور ترکِ سنت مکروہ ہے مگر کسی شرعی ضرورت کی وجہ سے ۔ (المسالک فی المناسک ،فصل فی الرواح من مکۃ الی منی ،صفحہ 487)

مقیم کے حکم کے بارے میں لباب المناسک میں ہے :

”والضابط فیہ : ان من وصل الی مکان صار حکمہ حکم اھلہ “

ترجمہ : یعنی اس میں ضابطہ یہ ہے کہ جو شخص کسی جگہ پہنچا تو اس کا حکم وہ ہوگیا جو اس جگہ کے رہنے والوں کا ہے ۔ (لباب المناسک مع شرحہ للقاری ،باب المواقیت ،فصل فی الصنف الثالث و ھم من کان منزلہ فی الحرم ،صفحہ 93)

مکہ کے رہنے والوں کیلئے احرام کے بارے میں لباب المناسک میں ہے :

”فوقتہ الحرم للحج والحل للعمرۃ “

ترجمہ : یعنی اسکی میقات حج کے لئے حرم ہے اور عمرہ کے لئے حل ہے ۔ (لباب المناسک مع شرحہ للقاری ،باب المواقیت ،فصل فی الصنف الثالث و ھم من کان منزلہ فی الحرم ،صفحہ 93)

بہار شریعت میں ہے:

”حرم کے رہنے والے حج کا احرام حرم سے باندھیں اور بہتر یہ کہ مسجد الحرام شریف میں احرام باندھیں اور عمرہ کا بیرون حرم سے اور بہتر یہ کہ تنعیم سے ہو۔“ (بہار شریعت ،حصہ ششم ،میقات کا بیان ، جلد 1 ،مکتبۃ المدینہ، کراچی)

میدان عرفات حدودِ حرم سے باہر ہے اس بارے میں مرآۃ الحرمین میں ہے :

”فحد الحرم من جھۃ الطائف علی طریق عرفۃ من بطن عرنۃ “

ترجمہ : یعنی حرم مکہ کی حد طائف کی جانب عرفات کے راستے پر بطنِ عُرَنَہ ہے ۔ (مرآۃ الحرمین ،مواقت و اعلام الحرم ،جلد 1 ،صفحہ 225)

فتاوی حج و عمرہ میں ہے :

”عرفات حدود حرم سے خارج ہے کیونکہ عرفات کی طرف حرم حدّ بطنِ عُرَنَہ تک ہے ۔“ ( فتاوی حج و عمرہ: مزدلفہ و عرفات حدود حرم میں داخل ہیں یا الخ ،جلد 1 ،صفحہ 101،ناشر جمعیت اشاعت اہلسنت پاکستان)

دم لازم ہونے کے حوالے سے بدایع صنائع میں ہے :

”ولو ترك المكي ميقاته فأحرم للحج من الحل وللعمرة من الحرم يجب عليه الدم، إلا إذا عاد“

ترجمہ : یعنی اگر مکی نے اپنا میقات ترک کر دیا کہ حج کے لئے حل سے اور عمرہ کے لئے حرم سے احرام باندھا تو اس پر دم واجب ہے ۔ (بدایع صنائع ،کتاب الحج ،فصل بیان مکان الاحرام ،جلد 2 ،صفحہ 167 ،دار الکتب العلمیہ، بیروت)

فتاوی شامی میں ہے:

”شرح النقاية للقاري فلو عكس فأحرم للحج من الحل أو للعمرة من الحرم لزمه دم إلا إذا عاد ملبيا إلى الميقات المشروع له كما في اللباب وغيره “

ترجمہ : یعنی ملا علی قاری رحمہ اللہ کی شرح نقایہ میں ہے کہ اگر عکس کیا یعنی حج کا احرام حل سے اور عمرہ کا احرام حرم سے باندھا تو دم لازم ہو گیا مگر یہ کہ جب وہ مشروع میقات کی طرف تلبیہ کہتے ہوئے لوٹ آیا (تو دم ساقط ہو جائے گا )جیسا اللباب وغیرہ میں ہے ۔ (فتاوی شامی مع در مختار ،مطلب فی المواقیت ،جلد 2 ،صفحہ 478، 479،دار الکتب العلمیہ، بیروت)

فتاوی حج و عمرہ میں علامہ عطاء اللہ نعیمی لکھتے ہیں:

”غیر مشروع میقات سے احرام باندھتے ہی مرتکب گناہگار ہو جاتا ہے ،مقام احرام کو لوٹے یا نہ لوٹے اس پر توبہ لازم ہو گئی اور اگر نہ لوٹا تو اس پر دم بھی لازم ہو گیا اور لوٹ کر دم ساقط کرنے کا وقت طوافِ عمرہ شروع کرنے سے اور حج میں وقوف عرفات میں شروع ہونے سے قبل ہے ، اس کے بعد بہر صورت دم لازم ہو گا ۔“ (فتاوی حج و عمرہ ، مکہ میں اقامت پذیر کا اپنے ہوٹل سے احرام الخ ،صفحہ 17 ،ناشر جمعیت اشاعت اہلسنت پاکستان)

واللہ اعلم باالصواب

کتبہ

ارشاد حسین عفی عنہ

18 ذوالحجہ 1444ھ

7/07/2023

اپنا تبصرہ بھیجیں