طواف وداع کیے بغیر مکہ سے مدینہ جانا

طواف وداع کیے بغیر مکہ سے مدینہ جانا

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ بغیر طواف وداع(الوداعی طواف) کیے اگر کوئی حاجی مدینہ منورہ چلا جائے اور نیت یہی ہو کہ واپس مکہ آنا ہے تو اس کا یوں جانا کیسا ہے؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

صورتِ مسئولہ میں (اہل مکہ اور حلی کے علاوہ)حاجی پر رخصت ہونے کے وقت میقات سے باہر ہونے سے پہلے پہلے طوافِ وداع کرنا واجب ہے لہذا بغیر طواف کئے جانا جائز نہیں اگرچہ واپسی کی نیت ہو۔ اگر طوافِ وداع کیے بغیر مدینہ منورہ چلا گیا تو اسکو اختیار ہے چاہے تو دم دیدے کہ واجب کو ترک کیا ہے یا عمرہ کا احرام باندھ کر واپس آئے اور عمرہ سے فارغ ہو کر طوافِ وداع کرے تو اس صورت میں دم ساقط ہو جائے گا ۔ اور بہتر یہ ہے کہ واپس نا آئے دم دیدے کہ اس میں فقراء کا فائدہ ہے ۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

”وطواف الصدر واجب على الحاج إذا أراد الخروج ،،،ولا يجب على أهل مكة“

ترجمہ : اور حاجی جب حاجی نکلنے کا ارادہ کرے تو اس پر طوافِ وداع (طوافِ رخصت) واجب ہے اور اہل مکہ پر واجب نہیں ہے ۔ (فتاوی عالمگیری ،مواضع رمی الجمار ،جلد 1 ،صفحہ 234، دار الکتب العلمیہ بیروت)

بہار شریعت میں ہے:

”جب ارادہ رخصت کا ہو طوافِ وداع بے رَمَل و سعی و اِضطباع بجا لائے کہ باہر والوں پر واجب ہے۔“ (بہار شریعت ،حصہ ششم ،طواف رخصت ، جلد 1 ،صفحہ 1158،مکتبۃ المدینہ کراچی)

بدائع صنائع میں ہے:

”فإن نفر ولم يطف يجب عليه أن يرجع، ويطوف ما لم يجاوز الميقات؛ لأنه ترك طوافا واجبا۔۔۔وإن جاوز الميقات لا يجب عليه الرجوع؛ لأنه لا يمكنه الرجوع إلا بالتزام عمرة بالتزام إحرامها ثم إذا أراد أن يمضي مضى، وعليه دم، وإن أراد أن يرجع أحرم بعمرة ۔۔۔ وإذا رجع يبتدئ بطواف العمرة ثم بطواف الصدر، ولا شيء عليه لتأخيره عن مكانه، وقالوا الأولى أن لا يرجع، ويريق دما مكان الطواف؛ لأن هذا أنفع للفقراء“

ترجمہ :یعنی(حاجی) اگر طواف کئے بغیر نکلا تو اس پر واپس لوٹنا اور طواف کرنا کرنا واجب ہے جب تک میقات سے تجاوز نا کیا ہو کیونکہ وہ واجب طواف کو ترک کرنے والا ہو گا اور اگر تجاوز کر لے تو اس پر واپس آنا واجب نہیں ہے کیونکہ رجوع ممکن نہیں مگر عمرہ کے احرام کے التزام کے ساتھ پھر جب جانے کا ارادہ ہو تو اس پر دم ہے ، اور اگر عمرے کے احرام کے ساتھ لوٹنے کا ارادہ کرے اور لوٹ آئے تو عمرہ کے طواف سے ابتداء کرے پھر طواف وداع کرے ، اور اس پر اس طواف کو اس جگہ سے مؤخر کرنے کی وجہ سے کچھ لازم نہیں ، اور فقہاء کرام فرماتے ہیں کہ نہ لوٹنا اور مکانِ طواف میں خون بہانا زیادہ بہتر ہے،کیونکہ یہ فقراء کے لئے نفع بخش ہے۔ (بدایع صنائع ،کتاب الحج فصل مكان طواف الصدر، جلد 2 ،صفحہ 143، دار الکتب العلمیہ بیروت )

فتاوی شامی میں ہے :

” فلو نفر ولم يطف وجب عليه الرجوع ليطوف ما لم يجاوز الميقات فيخير بين إراقة الدم والرجوع بإحرام جديد بعمرة مبتدئا بطوافها ثم بالصدر، ولا شيء عليه لتأخيره“

ترجمہ :یعنی اگر (حاجی) طواف کئے بغیر نکلا تو اس پر لوٹنا واجب ہے جب تک میقات سے گزرا نا ہو تاکہ طواف کرے ، (میقات سے گزرنے کی صورت میں) اس کو اختیار دیا جائے گا خون بہانے اور واپس لوٹنے میں کہ عمرہ کے نئے احرام کے ساتھ اس حال میں کہ وہ اسی کے طواف سے ابتداء کرے پھر طواف وداع کرے اور اس پر تاخیر کی وجہ سے کوئی شے لازم نہیں ہے ۔ (فتاوی شامی مع در مختار ،مطلب فی طواف الزیارۃ، جلد 2 ،صفحہ 523،دار الکتب العلمیہ بیروت)

بہار شریعت میں ہے:

” جو بغیر طوافِ رخصت کے چلا گیا تو جب تک میقات سے باہر نہ ہوا واپس آئے اور میقات سے باہر ہونے کے بعد یاد آیا تو واپس ہونا ضرور نہیں بلکہ دَم دیدے اور اگر واپس ہو تو عمرہ کا احرام باندھ کر واپس ہو اور عمرہ سے فارغ ہوکر طوافِ رخصت بجا لائے اور اس صورت میں دَم واجب نہ ہوگا۔“ (بہار شریعت ،طوافِ رخصت، جلد 1 ،حصہ ششم ، صفحہ 1159، مکتبۃ المدینہ کراچی)

واللہ اعلم باالصواب

کتبہ

ارشاد حسین عفی عنہ

4/7/2023

اپنا تبصرہ بھیجیں