والدین میں سے کس کا حکم ماننا زیادہ ضروری ہے؟

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے کے بارے میں کہ والدین میں سے کس کا حکم ماننا زیادہ ضروری ہے؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملك الوھاب اللھم ھدایة الحق و الصواب

دین اسلام نے والدین کے حقوق کو کثرت سے بیان کیا ہے اور دونوں ہی کی اطاعت و فرمانبرداری کی تلقین فرمائی ہے یہاں تک کہ اللہ پاک نے اپنے حق کے ساتھ والدین کے حق کو بیان کیا؛ اللہ پاک فرماتا ہے : أَنِ ٱشْكُرْ لِى وَلِوالِدَيْكَ ترجمہ: میرا اور اپنے والدین کا شکر ادا کرو۔(لقمان:14) لہذا انسان کو چاہیے کہ دونوں کے جائز حکم کی اپنے اپنے وقت میں اطاعت کرے البتہ کسی وقت دونوں کے حکم کی رعایت مشکل ہوجائے تو خدمت اور دینے  میں والدہ کو ترجیح دے اور تعظیم میں والد کو۔

اللہ پاک سورہ لقمان میں فرماتا ہے: وَوَصَّيْنَا ٱلْإِنسَانَ بِوَٰلِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُۥ وَهْنًا عَلَىٰ وَهْنٍ وَفِصَٰلُهُ فِى عَامَيْنِ ترجمہ: اور ہم نے آدمی کو اس کے ماں باپ کے بارے میں تاکید فرمائی اس کی ماں نے کمزوری پر کمزوری برداشت کرتے ہوئے اسے پیٹ میں اٹھائے رکھا اور اس کا دودھ چھڑانے کی مدت دو سال ہے۔(لقمان:14)

اس کی تفسیر میں علامہ قرطبی لکھتے ہیں:لَمَّا خَصَّ تَعَالَى الْأُمَّ بِدَرَجَةِ ذِكْرِ الْحَمْلِ وَبِدَرَجَةِ ذِكْرِ الرَّضَاعِ حَصَلَ لَهَا بِذَلِكَ ثَلَاثُ مَرَاتِبَ، وَلِلْأَبِ وَاحِدَةٌ ترجمہ: جب اللہ پاک نے والدہ کے حمل اور دودھ کی مدت کو ذکر کرکے اس کے درجے کو خاص کردیا تو اس سے والدہ کو والد پر تین درجے فضیلت حاصل ہوگئی۔(قرطبی،لقمان،تحت الایۃ 14)

اس کی تائید بخاری شریف کی حدیث پاک سے بھی ہوتی ہے،چناچہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللہِ، مَنْ أَحَقُّ بِحُسْنِ صَحَابَتِي ؟ قَالَ : ” أُمُّكَ “. قَالَ : ثُمَّ مَنْ ؟ قَالَ : ” أُمُّكَ “. قَالَ : ثُمَّ مَنْ ؟ قَالَ : ” أُمُّكَ “. قَالَ : ثُمَّ مَنْ ؟ قَالَ : ” ثُمَّ أَبُوكَ “۔ ترجمہ: ایک شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا  تو اس نے عرض کیا یارسول اللہ! میرے اچھے برتاؤ کا زیادہ حقدار کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہاری ماں عرض کیا پھر کون فرمایا تمہاری ماں عرض کیا پھر کون فرمایا تمہاری ماں عرض کیا پھر کون فرمایا تمہارا باپ۔(بخاری،کتاب الادب،باب من احق الناس بحسن صحبۃ،صفحہ 1500،حدیث 5971 دار ابن کثیر،بیروت)

اس کی شرح میں علامہ بدر الدین عینی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: وَحَدِيث أبي هُرَيْرَة يدل على أَن طَاعَة الْأُم مُقَدّمَة ترجمہ: حدیث ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ والدہ کی اطاعت مقدم ہے۔(عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری،جلد 22،صفحہ 129،دار الکتب العلمیہ)

فتح الباری میں ہے: وتقدم في ذلك على حق الأب عند المزاحمة ترجمہ: اختلاف کے وقت ماں کا حق باپ پر مقدم ہوگا۔(فتح الباری شرح صحیح البخاری،جلد 10،کتاب الادب،صفحہ 416،)

مزید لکھتے ہیں: ” و سئل الليث يعني: عن المسألة بعينها(طلبني أبي فمنعتني أمي) فقال: أطع أمك؛ فإن لها ثلثي البر” ترجمہ:لیث سے اس مسئلے کے بارے میں معلوم کیا گیا کہ میرے والد مجھ سے کسی بات کا مطالبہ کرتے ہیں اور میری والدہ منع کرتی ہیں، تو ارشاد فرمایا اپنی والدہ کی اطاعت کرو بے شک اس کے لئے بھلائی کے تین درجے ہیں۔(ایضا)

اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ فتاوی رضویہ میں اسی طرح کے سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں: اولاد پر باپ کا حق نہایت عظیم ہے اور ماں  کاحق اس سے اعظم۔ قال اللہ تعالٰی : { وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِ اِحْسٰنًاؕ-حَمَلَتْهُ اُمُّهٗ كُرْهًا وَّ وَضَعَتْهُ كُرْهًاؕ-وَ حَمْلُهٗ وَ فِصٰلُهٗ ثَلٰثُوْنَ شَهْرًاؕ-}

اور ہم نے تاکید کی آدمی کو اپنے ماں  باپ کے ساتھ نیک برتاؤ کی، اسے پیٹ میں  رکھے رہی اس کی ماں  تکلیف سے ، اور اسے جنا تکلیف سے ، اوراس کا پیٹ میں  رہنا اور دودھ چُھٹنا تیس مہینے میں  ہے۔اس آیۂ کریمہ میں  ربّ العزت نے ماں  باپ دونوں  کے حق میں  تاکید فرما کر ماں  کو پھرخاص الگ کر کے گِنا اور اس کی ان سختیوں  اور تکلیفوں  کو جو اسے حمل و ولادت اور دو برس تک اپنے خون کا عطر پلانے میں  پیش آئیں جن کے باعث اس کا حق بہُت اشدّ و اعظم ہوگیا شمار فرمایا، ام المؤمنین صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں : ((سَأَلْتُ رسولُ اللہَ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  : أَيُّ النَّاسِ أَعْظَمُ حَقًّا عَلَی الَمَرْأَۃِ؟ قَالَ :  زَوْجُھَا، قُلْتُ :  فَأَيُّ النَّاسِ أَعْظَمُ حَقًّا عَلَی الرَّجُلِ؟ قَالَ :  أُمُّہُ))، رواہ البزار بسند حسن والحاکم ۔

یعنی میں نے حضور اقدس سید عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم سے عرض کی :  عورت پر سب سے بڑا حق کس کا ہے ؟ فرمایا :  شوہر کا ، میں  نے عرض کی :  اور مرد پر سب سے بڑا حق کس کا ہے ؟ فرمایا :  اس کی ماں  کا ۔  (بزار نے اسے  سندِ حسن کے ساتھ اور حاکم نے اسے روایت کیا ۔) حدیث میں  ہے کہ رَسُوْل اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم فرماتے ہیں : ((أُوْصِي الرَّجُلَ بِأُمِّہِ، أُوْصِي الرَّجُلَ بِأُمِّہِ، أُوْصِي الرَّجُلَ بِأُمِّہِ، أُوْصِي الرَّجُلَ بِأَبِیْہِ))، رواہ الإمام أحمد وابن ماجہ والحاکم والبیھقی

میں  آدمی کو وصیت کرتا ہوں  اس کی ماں  کے حق میں ، وصیت کرتاہوں  اس کی ماں  کے حق میں ، وصیت کرتا ہوں  اس کی ماں  کے حق میں ، وصیت کرتا ہوں  اس کے باپ کے حق میں ۔

مگر اس زیادت کے یہ معنی ہیں  کہ خدمت میں  ، دینے میں  باپ پر ماں  کو ترجیح دے مثلاً سو روپے ہیں  اور کوئی وجہِ خاص (خاص وجہ) مانعِ  مادر نہیں  تو باپ کو پچیس دے ماں  کو پچھتر، یا ماں  باپ دونوں  نے ایک ساتھ پانی مانگا تو پہلے ماں  کو پلائے پھر باپ کو، یا دونوں  سفر سے آئے ہیں  پہلے ماں  کے پاؤں  دبائے پھر باپ کے ، وعلی ھذا القیاس، نہ یہ کہ اگر والدین میں  باہم تنازع ہو تو ماں  کا ساتھ دے کر معاذ اللہ باپ کے درپے ایذا ہو یا اس پر کسی طرح درشتی کرے یا اُسے جواب دے یا بے ادبانہ آنکھ ملا کر بات کرے ، یہ سب باتیں  حرام اور اللہ پاک کی معصیت ہیں ، اور اللہ تعالٰی کی معصیت میں  نہ ماں  کی اطاعت نہ باپ کی، تو اسے ماں  باپ میں  کسی کا ایسا ساتھ دینا ہر گز جائز نہیں  ، وہ دونوں  اس کی جنّت ونار ہیں  ، جسے ایذا دے گا دوزخ کا مستحق ہوگا والعیاذ باللہ تعالٰی، معصیت ِخالق میں  کسی کی اطاعت نہیں ، اگر مثلاً ماں  چاہتی ہے کہ یہ باپ کو کسی طرح کا آزار پہنچائے اور یہ نہیں  مانتا تو وہ ناراض ہوتی ہے ، ہونے دے اور ہر گز نہ مانے ، ایسے ہی باپ کی طرف سے ماں  کے معاملے میں  ۔ انکی ایسی ناراضیاں  کچھ قابلِ لحاظ نہ ہوں  گی کہ یہ ان کی نِری زیادتی ہے کہ اس سے اللہ تعالٰی کی نافرمانی چاہتے ہیں  بلکہ ہمارے علمائے کرام نے یوں  تقسیم فرمائی ہے کہ خدمت میں  ماں  کو ترجیح ہے جس کی مثالیں  ہم لکھ آئے ، اور تعظیم باپ کی زائد ہے کہ وہ اس کی ماں  کا بھی حاکم و آقا ہے ۔ ’’عالمگیری‘‘ میں  ہے :  إذا تعذّر علیہ جمع مراعاۃ حقّ الوالدین بأن یتأذّی أحدھما بمراعاۃ الآخر یرجّح حقّ الأب فیما یرجع إلی التعظیم والاحترام وحقّ الأمّ فیما یرجع إلی الخدمۃ والإنعام، وعن علاء الأئمّۃ الحمامي قال مشایخنا رحمھم اللہ تعالی :  الأب یقدم علی الأمّ في الاحترام والأمّ في الخدمۃ حتی لو دخلا علیہ في البیت یقوم للأب ولو سألا منہ مآء ولم یأخذ من یدہ أحدھما فیبدأ بالأمّ کذا في ’’القنیۃ‘‘، واللہ سبحانہ وتعالی أعلم وعلمہ جلّ مجدہ أحکم ۔

جب آدمی کیلئے والدین میں سے ہر ایک کے حق کی رعایت مشکل ہو جائے مثلاً ایک کی رعایت سے دوسرے کو تکلیف پہنچتی ہے تو تعظیم و احترام میں  والد کے حق کی رعایت کرے اور خدمت میں ، دینے میں  والدہ کے حق کی، علامہ حمامی نے فرمایا ہمارے امام فرماتے ہیں  کہ : احترام میں  باپ مقدم ہے اور خدمت میں  ماں ، حتّٰی کہ اگر گھر میں  دونوں  اس کے پاس آئے ہیں  تو باپ کی تعظیم کے لئے کھڑا ہو اور اگر دونوں  نے اس سے پانی مانگا اور کسی نے اس کے ہاتھ سے پانی نہیں  پکڑا تو پہلے والدہ کو پیش کرے ، اسی طرح ’’قنیہ‘‘ میں  ہے۔(فتاوی رضویہ،جلد 24،رسالہ الحقوق لطرح العقوق،رضا فاؤنڈیشن لاہور)

واللہ اعلم عزوجل و رسولہ اعلم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

کتبہ :

ابو بنتین محمد فراز عطاری مدنی عفی عنہ بن محمد اسماعیل

اپنا تبصرہ بھیجیں