معتکف کا اعتکاف میں منہ کو چھپانا ضروری نہیں ہے

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین مسئلہ ذیل میں کہ اعتکاف میں منہ کو چھپانا کیا ضروری ہے؟ بینوا توجروا۔

جواب: الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب۔

معتکف کا اعتکاف میں منہ کو چھپانا ضروری نہیں ہے، بعض لوگ جو اس طرح اعتکاف کرتے ہیں کہ منہ مسلسل چھپا کر رکھتے ہیں اور اسے ہی اعتکاف میں ضروری سمجھتے ہیں تو یہ درست نہیں بلکہ اگر دکھاوے کے طور پر منہ چھپایا جائے کہ میں معکتف ہوں تو یہ ریاکاری ہے جو کہ جائز نہیں۔ اور اگر اس طرح نماز پڑھی کہ منہ کو چھپایا ہوا تھا تو یہ نماز مکروہ تحریمی واجب الاعادہ ( یعنی دوبارہ پڑھنا ) ہو گی.

بدائع الصنائع میں علامہ علاؤالدین الکاسانی فرماتے ہیں:  ویکرہ ان یغطی فاہ فی الصلاۃ، لان النبی صلی اللہ علیہ وسلم نھی عن ذلک۔۔۔۔۔۔۔ولو غطاہ بثوب فقد تشبہ بالمجوس، لانھم یتلثمون فی عبادتھم النار “

ترجمہ: نماز میں چہرہ كو چھپانا مکروہ تحریمی ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔۔۔ اور اگر نمازی نے نماز میں چہرہ چھپایا تو اس نے مجوسیوں کی مشابہت اختیار کی، کیونکہ وہ آگ کی پوجا کرتے وقت چہرے کو چھپاتے ہیں۔

( بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع، جلد 01، صفحہ 216، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ).

حضرت علامہ ابو الخیر نوراللہ نعیمی بصیرپوری علیہ رحمۃ اللہ القوی سے سوال ہوا: ہماری مسجدمیں ایک پیش امام صاحب اعتکاف میں بیٹھے ہیں مگران کااعتکاف نرالا ہی ہے کہ نہ تووہ عام معتکفین کی طرح ہروقت اوڑھتے رہتے ہیں  بلکہ ننگے منہ جماعت بھی کراتے ہیں، باہر پیشاب پاخانے جاتے وقت بھی ننگے منہ جاتے ہیں اورنہ ہی مطلقاً خاموشی دائمی اختیار کی ہے بلکہ نماز کے بعد درس دیتے ہیں اور معترضین کے اعتراضوں کا جواب بھی دیتے ہیں بلکہ لوگ اس کے پاس جا کر مسائل پوچھیں توان سے باتیں بھی کرتے ہیں اورجواب مسائل بھی دیتے ہیں، جمعہ کے بعد بھی مسائل بیان کرتے ہیں، وہ لوگوں کے ساتھ کھانابھی کھاتے ہیں تو یہ کیا یہ سب کام معتکف کے لیے جائزہیں؟

آپ علیہ الرحمہ اس کے جواب میں فرماتے ہیں: ” امورِ مذکورہ سوال شرعاً معتکف کے لئے  سب جائز ہیں، قرآنِ کریم اوراحادیث شریفہ قولیہ وفعلیہ وتقریریہ سے، قرآن کریم فرماتاہے: كُنْتُمْ  خَیْرَ  اُمَّةٍ  اُخْرِجَتْ  لِلنَّاسِ   تَاْمُرُوْنَ  بِالْمَعْرُوْفِ  وَ  تَنْهَوْنَ  عَنِ  الْمُنْكَرِ  وَ  تُؤْمِنُوْنَ  بِاللّٰهِؕ- فَسْــٴَـلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَۙ(۴۳)۔

ارشاد ہے: كُونُوا رَبَّانِيِّينَ بِمَا كُنتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتَابَ وَبِمَا كُنتُمْ تَدْرُسُونَ۔ اوریہ بھی حکم فرمایا: وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ، نیزیہ بھی حکم فرمایا:  وَإِنِ اسْتَنْصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ، نیزفرمایا: إِلَّا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ ٱلصَّٰلِحَٰتِ وَتَوَاصَوْاْ بِٱلْحَقِّ وَتَوَاصَوْاْ بِٱلصَّبْرِ۔ نیز ارشاد فرمایا: لَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَاْكُلُوْا جَمِیْعًا اَوْ اَشْتَاتًاؕ- وغیرہ صدہا آیات ہیں جن سے جواز بلکہ بہت سی چیزوں کافرض ہونا مطلقاً ثابت ہے۔اور

قرآنِ کریم میں تو صاف فرمایا: ” وَلا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنْتُمْ عاكِفُونَ فِي الْمَساجِدِ “ یعنی اعتکاف کی حالت میں بیویوں سے مباشرت کو منع فرمایا ہے نہ کہ سب چیزیں ہی حرام ہوگئیں ۔“

(فتاوی نوریہ، جلد 02، صفحہ285، مطبوعہ دارالعلوم حنفیہ فریدیہ، بصیر پورہ اوکاڑہ)۔

واللہ اعلم عزوجل و رسولہ الکریم اعلم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

                         کتبہ

سگِ عطار محمد رئیس عطاری بن فلک شیر غفرلہ

اپنا تبصرہ بھیجیں