دل میں طلاق دینے سے طلاق ہوگی یا نہیں

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ دل میں طلاق دینے سے طلاق ہوگی یا نہیں یعنی زبان سے کچھ نہ کہا دل میں ہی طلاق دی تو کیا حکم ہے؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

محض دل میں طلاق دینے سے طلاق واقع نہیں ہوگی جب تک زبان کے ساتھ  طلاق کے الفاظ ادا نہ کیے جائیں کیونکہ طلاق کہتے ہیں مخصوص الفاظ کے ساتھ نکاح کی قید کو اٹھانا جبکہ دل میں طلاق دینے سے الفاظ طلاق کا تلفظ نہیں پایا جاتا یوں ہی جس جگہ شریعت مطہرہ نے کچھ پڑھنا یا کہنا مقرر کیا ہے (جیسے طلاق دینے، آزاد کرنے، جانور ذبح کرنے میں) اس سے یہی مقصد ہے کہ کم از کم اتنی آواز ہو کہ بندہ خود سن سکے. اور اگر اتنی آواز نہ ہو کہ بندہ خود سن سکے تو طلاق واقع نہیں ہوگی۔

جیسا کہ درمختار میں ہے

(وھو)لغۃ :رفع القید ۔۔۔وشرعا (رفع قید النکاح فی الحال ل) بالبائن (اوالمال) بالرجعی (بلفظ مخصوص) ھو ماشتمل علی الطلاق۔

ترجمہ: طلاق لغت میں قید اٹھانے کو کہتے ہیں اصطلاح شریعت میں نکاح کی قید کو فوراً طلاق بائن کے ساتھ یا انجام کے اعتبار سے طلاق رجعی کے ساتھ اٹھانا مخصوص الفاظ کے ذریعے جو طلاق پر مشتمل ہوں۔

(ردالمحتار علی الدرالمختار، کتاب الطلاق، ج4،ص426،25،24 مطبوعہ لاھور)

اسی طرح درمختار میں ہے کہ “ادنی الجھرا اسماع غیرہ ادنی المخافتۃ اسماع نفسہ ویجری ذٰلك فی کل مایتعلق بالنطق کتسمیۃ علی ذبیحۃ ووجوب سجدۃ تلاوۃ،وعتاق وطلاق واستثناء فلوطلق او استثنٰی ولم یسمع نفسہ لم یصح فی الاصح” ملتقطا۔

ترجمہ: کم از کم جہریہ ہے کہ دوسرا سُنے اور کم از کم خفاء یہ ہے کہ خود سُن سکے۔ یہ ضابطہ ہر ایسے مقام کے لئے ہے جس کا تعلق بولنے سے ہو، جیسے ذبیحہ پر بسم ﷲ، سجدہ تلاوت پر سجدہ کا وجوب، غلام کو آزاد کرنا، طلاق دینا، اور کلام میں کوئی استثناء کرنا، لہذا اگر طلاق دی یا استثناء کیا اور خود نہ سنا تو اصح مذہب پر طلاق اور استثناء صحیح نہیں ہوگا.

 (درمختار فصل و یجہر الامام، ج2 ص308،309 مطبوعہ لاھور)

اسی طرح سیدی اعلحضرت رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر فقط دل میں طلاق دی تھی یُوں کہ زبان سے کچھ کہا ہی نہ تھا یا کہا مگر فقط زبان کو حرکت تھی اتنی آواز نہ تھی کہ اپنے کان تک آنے کے قابل ہو جب تو طلاق ہوئی ہی نہیں، اور اگر ایسی آواز سےکہا کہ اپنے کان تک آنے کے قابل تھی اگر چہ مینہ یا ہوا یا کسی شور وغل کے سبب اپنے کان تک نہ پہنچی تو طلاق ہوگئی۔

(فتاویٰ رضویہ ج 12، ص368، رضا فائونڈیشن لاھور)

کتبہ:- محمد عمیر علی حسینی مدنی غفر لہ

اپنا تبصرہ بھیجیں