مقتدی اگر امام کے پیچھے بھول کر واجب ترک کرے

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین مسئلہ ذیل میں کہ مقتدی اگر امام کے پیچھے بھول کر واجب ترک کرے تو اس کی نماز ہو جائے گی؟ بینوا توجروا۔

جواب: الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب۔

اگر مقتدی امام کے پیچھے بھول کر واجب ترک کردے تو اس پر اصلاً سجدہ سہو واجب نہیں ہوتا بلکہ اس کی نماز ہو جاتی ہے کیونکہ اگر وہ اکیلا سجدہ سہو ادا کرے گا تو امام کی مخالفت لازم آئے گی اور اگر امام بھی اس کے ساتھ سجدہ سھو کرے تو معاملہ الٹ ہو جائے گا(یعنی اصل تابع اور تابع اصل بن جائے گا)۔ اور اس پر نماز کا اعادہ بھی نہیں ہو گا۔

چنانچہ اللّٰہ پاک کے آخری نبی صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: “لیس علی من خلف الامام سھو فان سھا الامام فعلیہ وعلی من خلفہ السھو”

ترجمہ: امام کے پیچھے نماز پڑھنے والے پر سجدہ سہو نہیں، اگر امام بھول گیا تو اس پر اور اس کے مقتدیوں پر سجدہ سہو ہے۔(سنن دارقطنی ، باب لیس علی المقتدی سھو، جلد02، صفحہ212، حصہ 1413، مؤسسة الرسالہ، بيروت).

بدائع امام ملک العلماء جلد اول صفحہ 175 میں ہے: “المقتدی اذاسھا فی صلوٰتہ فلا سہو علیہ”

ترجمہ: اگر مقتدی نماز میں بھول جائے تو اس پر سجدہ سہو لازم نہیں۔ (بدائع الصنائع فصل من یجب علیہ سجود السہو مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ /۱۷۵)

امام اجل امام طحاوی رحمہ اللہ تعالی اس مسئلے پر دلائل دینے کے بعد ارشاد فرماتے ہیں ” ثبت ان المأمومین یجب علیھم حکم السھو لسھو الامام وینتفی عنھم حکم السھو بانتفائہ عن الامام’

ترجمہ: بات ثابت ہوگئی کہ امام کے سہو کی وجہ سے مقتدیوں پر سجدہ سہو واجب ہے اور امام سے نفی کی صورت میں مقتدیوں سے بھی اس کی نفی ہوگی۔ (الطحاوی شرح معانی الآثار باب الرجل یصلی الفریضۃ خلف من یصلی تطوعا مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/۲۸۰)

صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی فتاویٰ امجدیہ مطبوعہ مکتبہ رضویہ کراچی جلد اول صفحہ 274 پر اسی طرح کے سوال کا جواب دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

 “چوں از مقتدی سھواً ترک واجب واقع شد، نہ برد سجدہ سھو واجب است، نہ اعادہ نماز” یعنی چونکہ مقتدی سے سھواً واجب ترک ہوا ہےلہذا اس صورت میں سجدہ سھو واجب نہیں ہو گا اور نہ ہی اعادہ نماز ہے۔

بہارِ شریعت میں ہے ” اگر مقتدی سے بحالتِ اقتدا سہو واقع ہوا تو سجدۂ سہو واجب نہیں”۔ (بہارِ شریعت حصہ چہارم جلد اول (ب) مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی)

اور اسی کے تحت حاشیہ میں ہے کہ ” اور اعادہ بھی اس کے ذمہ نہیں”کماحققناہ فی فتاوٰنا۔۱۲ منہ

واللہ اعلم عزوجل و رسولہ الکریم اعلم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

              کتبہ

سگِ عطار محمد رئیس عطاری بن فلک شیر

( مورخہ 09 فروری 2021 بمطابق 26 جمادی الثانی 1442ھ بروز منگل)۔

اپنا تبصرہ بھیجیں