یونین کونسل والے اس طلاق کو نافذ کرکے طلاق کا سرٹیفکیٹ جاری نہ کریں گے، کیا اس وقت تک طلاق نہیں ہوگی؟

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ آجکل یونین کونسل والے کہتے ہیں کہ شوہر نے جتنی مرضی طلاقیں دی ہوں اور جتنا مرضی طلاق دیئے عرصہ گزر چکا ہو لیکن جب تک ہم یونین کونسل والے اس طلاق کو نافذ کرکے طلاق کا سرٹیفکیٹ جاری نہ کریں گے، طلاق نہیں ہوگی۔ شرعاً یونین کونسل والوں کا یہ کہنا کیا درست ہے؟ برائے کرم ! رہنمائی فرمادیں۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

آجکل یونین کونسل والے کہتے ہیں کہ شوہر نے جتنی مرضی طلاقیں دی ہوں اور جتنا مرضی طلاق دیئے عرصہ گزر چکا ہو لیکن جب تک ہم یونین کونسل والے اس طلاق کو نافذ کرکے طلاق کا سرٹیفکیٹ جاری نہ کریں گے، طلاق نہیں ہوگی۔ یونین کونسل والوں کا یہ کہنا شرعاً کسی بھی اعتبار سے درست نہیں، المیہ یہ ہے کہ لوگ طلاق دینے کے بعد وکیلوں یا اسٹام پیپر والوں یا یونین کونسل والوں سے رابطہ کرتے ہیں، جس پر وہ کہتے ہیں کہ جتنی مرضی طلاقیں دے دی جائیں 90 دن کے اندر اندر صلح کی جاسکتی ہے، اسی طرح یونین کونسل والے کہتے ہیں کہ طلاق دینے کے بعد خواہ 90 دن گزرے ہوں یا اس سے زائد، جبتک ہم طلاق کو نافذ کرکے طلاق کا سرٹیفکیٹ جاری نہ کردیں، طلاق نہ ہوگی وغیرہ۔ یہ سب باتیں چودہ سے سال بعد لوگوں نے اپنی طور پر بنالی ہیں، جب یونین کونسل وغیرہ نہ تھے تو کیا اس وقت جو طلاق ہوتی تھی اور عورت آگے کسی اور سے نکاح کرتی تھی وہ سب غیر شرعی تھا؟ یقیناً ایسی باتیں قرآن و حدیث کے خلاف اور زمانہ جاہلیت کی ترجمانی ہے۔

قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: الطلاق مرتان فإمساك بمعروف أو تسريح بإحسان۔
ترجمہ کنزالایمان: یہ طلاق دو بار تک ہے پھر بھلائی کے ساتھ روک لینا ہے یا نکوئی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے۔
(القرآن، سورہ بقرہ، آیت229)

قرآن پاک میں االلہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره فإن طلقها فلا جناح عليهما أن يتراجعا إن ظنا أن يقيما حدود الله وتلك حدود الله يبينها لقوم يعلمون۔
ترجمہ کنزالایمان: پھر اگر تیسری طلاق اسے دی تو اب وہ عورت اسے حلال نہ ہوگی جب تک دوسرے خاوند کے پاس نہ رہے پھر وہ دوسرا اگر اسے طلاق دیدے تو ان دونوں پر گناہ نہیں کہ پھر آپس میں مل جائیں اگر سمجھتے ہوں کہ اللہ کی حدیں نبھائیں گے، اور یہ اللہ کی حدیں ہیں جنہیں بیان کرتا ہے دانش مندوں کے لئے۔
(القرآن، سورہ بقرہ، آیت230)

تفسیر ابن کثیر میں اس آیت “الطلاق مرتان” کے تحت ہے: هذه الآية الكريمة رافعة لما كان عليه الأمر في ابتداء الإسلام من أن الرجل كان أحق برجعة امرأته وإن طلقها مائة مرة ما دامت في العدة، فلما كان هذا فيه ضرر على الزوجات قصرهم الله إلى ثلاث طلقات، وأباح الرجعة في المرة والثنتين، وأبانها بالكلية في الثالثة۔
ترجمہ: یہ آیت کریمہ اس رواج کو ختم کرنے والی ہے جو ابتدائے اسلام میں تھا کہ مرد اپنی عورت سے دوران عدت رجوع کرنے کا حقدار سمجھتا تھا اگرچہ سو طلاقیں دے چکا ہو جبکہ اس میں بیویوں کیلئے نقصان(ضرر) تھا تو اللہ تعالیٰ نے تین طلاقیں مقرر فرمادیں اور رجوع کرنے کو پہلی اور دوسری بار میں مباح رکھا اور تیسری طلاق دینے پر جدائی کا حکم واضح فرمادیا۔
(تفسیر ابن کثیر، جلد1، صفحہ460، مطبوعہ دار الكتب العلميہ، بیروت، لبنان)

تفسیر کبیر میں ہے: المسألة الأولى: كان الرجل في الجاهلية يطلق امرأته ثم يراجعها قبل أن تنقضي عدتها، ولو طلقها ألف مرة كانت القدرة على المراجعة ثابتة له، فجاءت امرأة إلى عائشة رضي الله عنها، فشكت أن زوجها يطلقها ويراجعها يضارها بذلك، فذكرت عائشة رضي الله عنها ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم، فنزل قوله تعالى: الطلاق مرتان.
ترجمہ: مسئلہ اولٰی، یہ کہ جاہلیت میں مرد بیوی کو طلاق دے کر پھرعدت کے خاتمہ کے قریب رجوع کرلیتا اور اس طرح ہزار طلاق بھی ہوتی تب بھی خاوند کو رجوع کا اختیار رہتا، تو ایک عورت حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اس نے اپنے خاوند کی شکایت کی کہ وہ طلاق دے کر عدت ختم ہونے سے قبل رجوع کرلیتا ہے اور تنگ کررہا ہے تو حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا نے یہ واقعہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کو بیان کیا تو اس پر یہ آیۂ کریمہ نازل ہوئی الطلاق مرتان، الآیۃ۔
(تفسیر کبیر، الحكم الحادي عشر في الطلاق، جلد6، 442، مطبوعہ دار إحياء التراث العربی، بيروت، لبنان)

معالم التنزيل في تفسير القرآن المعروف تفسير البغوي میں ہے: قوله تعالى: الطلاق مرتان، روي عن عروة بن الزبير قال: كان الناس في [ابتداء الإسلام] [١] يطلقون من غير حصر ولا عدد، وكان الرجل يطلق امرأته، فإذا قاربت انقضاء عدتها راجعها، ثم طلقها كذلك، ثم راجعها، يقصد [بذلك] [٢] مضارتها، فنزلت هذه الآية: الطلاق مرتان، يعني: الطلاق الذي يملك الرجعة عقيبه مرتان، فإذا طلق ثلاثا فلا تحل له إلا بعد نكاح زوج آخر۔
ترجمہ: امام بغوی نے تفسیر معالم التنزیل میں فرماتے ہیں کہ ﷲ تعالٰی کا ارشاد”الطلاق مرتٰن الخ”الآیۃ کا شانِ نزول یہ ہے جس کو حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بیان فرمایا کہ لوگ ابتداء اسلام میں بے شمار اور لاتعداد طلاقیں دیتے تھے، اور کوئی بھی شخص بیوی کو طلاق دے کر عدت ختم ہونے کے قریب رجوع کرلیتا اور پھرطلاق دے دیتا اور یوں بار بار کرتا رہتا جس کا مقصد بیوی کو تنگ کرنا تھا تو یہ آیۂ کریمہ نازل ہوئی، یعنی وہ طلاق جس کے بعد خاوند رجوع کرسکتا ہے وہ دوبارہے، اور جب تین طلاقیں پوری کردے تو اس کےلئے بیوی حلال نہ ہوگی مگر بیوی دوسرے شخص سے نکاح کرے تو اس کے بعد حلال ہوسکے گی۔
(معالم التنزيل في تفسير القرآن المعروف تفسير البغوي، جلد1، صفحہ304، مطبوعہ دار إحياء التراث العربی، بيروت، لبنان)

تفسیرات احمدیہ میں ہے:لما کان عدد الطلاق فی الجاھلیۃ غیر مقرر علی وتیرۃ واحدۃ حتی انہ لو طلقھا عشرۃ یمکنہ رجعتھا وکان یراجعھا وقت انقضاء العدۃ ثم یطلقھا ویراجعھا حتی ان جاءت امرأۃ الٰی عائشۃ رضی اﷲ تعالٰی عنھا تشکومن مراجعۃ زوجھا ثم تطلیقھا ثم وثم ھکذا فعرضت الٰی رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فنزل قولہ تعالی الطلاق مرتان فامساک بمعروف او تسریح باحسان یعنی ان الطلاق الرجعی الذی یتعلق بہ الرجعۃ مرتان ای اثنتان لازائد تان فبعد ذٰلک امساکھا بمعروف او تسریحھا کذٰلک وھذا امر بصیغۃ الخبر کانہ قیل طلقوا الرجعی مرتین وھذاالتوجیہ المذکور فی الحسینی والزاھدی والبیضاوی والتلویح وھو الموافق لمذھب الشافعی وابی حنیفۃ جمیعا۔
ترجمہ: چونکہ زمانۂ جاہلیت میں طلاق دینے کی تعداد اور طریقہ مقرر نہ تھا، یہانتک کہ اگر کوئی دس طلاقیں بھی دے دیتا تو وہ رجوع کرسکتا تھا اور وہ طلاق دے کر پھر رجوع کرلیتا اور عدت ختم ہونے کے قریب رجوع کرکے پھر طلاق دے دیتا، یہانتک کہ ایک عورت نے حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا کے پاس آکر اپنے خاوند کی شکایت کرتے ہوئے کہا کہ وہ با ربار طلاق دیتا اور رجوع کرلیتا ہے، تو حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالٰی عنھا نے یہ بات حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام سے عرض کی، تو اس پر یہ آیہ کریمہ نازل ہوئی، اﷲ تعالٰی نے فرمایا:الطلاق مرتان الآیۃ،یعنی وہ طلاق جس کے بعد رجوع کرنا جائز ہے وہ دوبار طلاق ہے اس سے زائد نہیں، اس کے بعد بھلائی سے بیوی کو پاس رکھنا ہوگا یانیکی کے ساتھ آزاد کرتے ہوئے آخری طلاق دینا ہوگی۔ اورتفسیر بیان کی جو امام شافعی اور امام ابوحنیفہ رحمہمااﷲتعالٰی دونوں کے مذہب کے موافق ہے۔
(تفسیرات احمدیہ ، صفحہ123، مطبوعہ مکتبہ کریمی، بمبئی، ھند)

مصنف عبدالرزاق میں ہے: عن أبي رزين قال: جاء رجل، فقال: يا رسول الله أسمع الله يقول: {الطلاق مرتان} [البقرة: ٢٢٩]، فأين الثالثة؟ قال: «التسريح بإحسان»
ترجمہ: ابو رزین سے مروی ہے، فرماتے ہیں ایک شخص نے آکر کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں نے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان سنا ہے: طلاق دو بار تک ہے، تو تیسری طلاق کا کیا حکم ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اچھے سلوک کے ساتھ چھوڑدینا ہے۔
(مصنف عبدالرزاق، جلد6، صفحہ337، مطبوعہ المكتب الاسلامي، بيروت، لبنان)

مصنف عبدالرزاق میں ایک اور مقام پر ہے:عن قتادة قال: ” لم يكن للطلاق في الجاهلية وقت متى شاء راجعها في العدة فهي امرأته، حتى سن الله الطلاق ثلاثا، فقال: {الطلاق مرتان فإمساك بمعروف أو تسريح بإحسان} [البقرة: ٢٢٩] الثالثة۔
ترجمہ: حضرت قتادہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے، فرماتے ہیں کہ: زمانہ جاہلیت میں طلاق کا کوئی وقت مقرر نہ تھا جو چاہتا عدت میں رجوع کرلیتا تو وہ اس کی عورت ہوجاتی، یہانتک کہ الہ تعالیٰ نے تین طلاقیں نافذ فرمائیں، پھر فرمایا: طلاق دو بار تک ہے پھر بھلائی کے ساتھ روک لینا ہے یا اچھے سلوک کے ساتھ چھوڑدینا ہے۔ یہی تیسری طلاق ہے۔
(مصنف عبدالرزاق، جلد6، صفحہ338، مطبوعہ المكتب الاسلامي، بيروت، لبنان)

سنن کبریٰ بیہقی میں ہے: عن ابن عباس رضي الله عنهما في قوله تعالى: {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: ٢٣٠] يقول: ” إن طلقها ثلاثا فلا تحل له حتى تنكح زوجا غيره “، ثم قال: {فإن طلقها فلا جناح عليهما أن يتراجعا} [البقرة: ٢٣٠] يقول: ” إذا تزوجت بعد الأول فدخل بها الآخر فلا حرج على الأول أن يتزوجها إذا طلقها الآخر أو مات عنها ” وروينا عن القاسم بن محمد في موت الثاني عنها قبل أن يمسها لا يحل لزوجها الأول أن يتزوجها۔
ترجمہ: اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد (پھر اگر طلاق اسے دی تو اب وہ عورت اسے حلال نہ ہوگی جب تک دوسرے خاوند کے پاس نہ رہے) کے بارے میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے، فرماتے ہیں: اگر تیسری طلاق اسے دی تو اب وہ عورت اسے حلال نہ ہوگی جب تک دوسرے خاوند کے پاس نہ رہے، پھر اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد(پھر وہ دوسرا اگر اسے طلاق دیدے تو ان دونوں پر گناہ نہیں کہ پھر آپس میں مل جائیں) حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں: جب پہلے شوہر کے بعد عورت کسی دوسرے سے شادی کرے اور وہ دخول کرے پھر جب دوسرا شوہر اسے طلاق دے یا مرجائے تو اب پہلے شوہر پر کوئی حرج نہیں کہ وہ اس عورت سے نکاح کرلے۔ اور شوہر ثانی کی موت کے بارے میں حضرت قاسم بن محمد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ جبتک شوہر ثانی اس عورت سے مس(دخول) نہ کرلے عورت پہلے شوہر کیلئے حلال نہ ہوگی۔
(سنن کبریٰ بیہقی، جلد7، صفحہ616، مطبوعہ دار الكتب العلميہ، بيروت، لبنان)

سنن کبریٰ بیہقی میں ہے: عن عبد الله، وعن ناس من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكر التفسير إلى قوله: الطلاق مرتان قال: ” وهو الميقات الذي يكون عليها فيه الرجعة فإذا طلق واحدة أو ثنتين، فإما أن يمسك ويراجع بمعروف، وإما يسكت عنها حتى تنقضي عدتها فتكون أحق بنفسها ”
ترجمہ: حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض اصحاب سے روایت فرماتے ہیں کہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت کریمہ ’’الطلاق مرتان‘‘ کی تفسیر بیان فرمائی کہ: اور وہ ایسا وقت ہے کہ جس میں رجوع کرسکتا ہے جبکہ ایک یا دو طلاقیں دی ہوں پھر یا تو وہ اسے روک لے بھلائی کیساتھ یا پھر چھوڑدے یہانتک کہ اس کی عدت پوری ہوجائے تو وہ اب اپنے آپ کو اختیار کرنے کی زیادہ حقدار ہے۔
(سنن کبریٰ بیہقی، جلد7، صفحہ601، مطبوعہ دار الكتب العلميہ، بيروت، لبنان)

فتاویٰ رضویہ میں ہے: ائمہ تفسیر وحدیث نے اس آیہ کریمہ کا شانِ نزول یوں بیان فرمایا کہ اسلام سے قبل طلاق کی کوئی تعداد یا حد مقرر نہ تھی بلکہ خاوند جتنی بار بھی طلاق دے کر رجوع کرنا چاہتا کرلیتا، اور جب بیوی کو تنگ کرنا مقصود ہوتا تو طلاق دے کر عدت ختم ہونے کے قریب وہ رجوع کرلیتا اور رجوع کے بعد پھر طلاق دیتا اور عدت کے خاتمہ کے قریب رجوع کرلیتا اور جتنی بار دل چاہتا کرتا بیوی بیچاری لٹک کر رہ جاتی ا س کےلئے آزادی یا آبادی کا کوئی طریقہ نہ رہتا، اسی پریشانی میں ایک عورت دربارِ رسالت میں حاضر ہوئی اور فریاد کی، تو اس پر یہ آیہ کریم نازل ہوئی، اورتین طلاقوں کے بعد رجوع کا اختیار ختم ہوگیا اور بیوی خود مختار ہوگئی۔
(فتاویٰ رضویہ، جلد13، صفحہ18، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاہور، پاکستان)

واللہ تعالیٰ اعلم ورسولہ اعلم باالصواب

کتبہ

محمد منور عطاری مدنی

بتاریخ: 15 نومبر 2022

اپنا تبصرہ بھیجیں