یونین کونسل والوں کا کہنا کہ”جب تک ہم طلاق نافذ نہ کریں گے ، طلاق نہیں ہوگی “

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ آجکل یونین کونسل والے کہتے ہیں کہ شوہر نے جتنی مرضی طلاقیں دی ہوں اور جتنا مرضی طلاق دیے عرصہ گزر چکا ہو لیکن جب تک ہم یونین کونسل والے اس طلاق کو نافذ کرکے طلاق کا سرٹیفکیٹ جاری نہ کریں گے طلاق نہیں ہوگی۔شرعا یونین کونسل والوں کا یہ کہنا کیا درست ہے؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق وا لصواب

یونین کونسل والوں کا کہنا کہ”جب تک ہم طلاق نافذ نہ کریں گے ، طلاق نہیں ہوگی “یہ جہالت اور شریعت پر افتراء ہے،قرآن وحدیث کے مخالف ہے۔ یونین کونسل والے اب چند سالوں میں وجود میں آئے ہیں ، ان سے صدیوں پہلے تک جو زبانی نکاح و طلاق ہوا کرتے تھے اور طلاق کے بعد عورت آگے دوسرے شخص سے نکاح کرتی تھی ، کاغذی کاروائی تو ہوتی نہیں تھی تو کیا وہ سب باطل تھے؟ ہر گز نہیں ۔
کچھ وکلاء اور اشٹام پیپر فروش بھی کہتے ہیں کہ نوے دن کے اندر صلح ہوسکتی ہے چاہے جتنی بھی طلاقیں دی ہوں جو کہ سراسر غلط ہے ۔جب کہ شریعت مطہرہ میں اگر کوئی مرد اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دے تو تین بحکم الہی حلالہ ضروری ہے۔
شریعت اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات ہیں چاہے ہزاروں قوانین بنا دیے جائیں اور وہ قرآن یا حدیث کی کسی آیت سے ٹکراتے ہوں فاسد و باطل اور بے کار ہیں زمانہ جاھلیت کا دستور تھا کہ لوگ مرد عورت کو طلاق دیتا پھر جب عدت ختم ہونے کے قریب ہوتی تو رجوع کر لیتا پھر طلاق دیتا اور عدت ختم ہونے کے قریب رجوع کر لیتا ایسے ہی عورتوں کو لٹکائے رکھتا اس باطل فعل سے اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں منع فرمایا اور عورت کو اچھے طریقے سے چھوڑنے کا حکم فرمایا

اللہ رب العزت قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:

اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ۪-فَاِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌۢ بِاِحْسَانٍؕ-
ترجمہ کنز الایمان:
یہ طلاق دو بار تک ہے پھر بھلائی کے ساتھ روک لینا ہے یا نکوئی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے
((سورۃ بقرہ آیت 229))

تفسیر ابن کثیر میں اسی آیت کے تحت ہے:

ھذہ الآیۃ رافعۃ لما کان علیہ الامر فی ابتداء الاسلام من ان الرجل احق برجعۃ امرأتہ و ان طلقاھا مئۃ مرۃ مادامت فی العدۃ فلما کان فیہ ضرر علی الزوجات قصرھم اللہ الی ثلاث طلقات و أباح الرجعۃ فی المرۃ والثنتین و ابانھا بالکلیۃ فی الثالثۃ فقال اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ۪-فَاِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌۢ بِاِحْسَانٍؕ-
ترجمہ:
یہ آیت اس معاملے کو اٹھانے والی ہے جو ابتداء اسلام میں تھا کہ مرد اپنی عورت سے رجعت کا زیادہ حق رکھتا اگرچہ اس نے سو طلاقیں ہی دی ہوتیں ایک ہی مرتبہ جب تک عورت عدت میں ہوتی تو جب اس میں بیویوں کے لیے نقصان تھا تو اللہ تعالیٰ نے طلاق کو تین تک کم فرمایا اور رجوع کو پہلی اور دوسری مرتبہ میں جائز رکھا اور عورت جو بائنہ فرمایا مکمل طور پر تیسری طلاق میں اور ارشاد فرمایا یہ طلاق دو بار تک ہے پھر بھلائی کے ساتھ روک لینا ہے یا نکوئی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے ۔

((تفسیر ابن کثیر صفحہ 610 تحت الایۃ الطلاق مرتان))

مفتی قاسم صاحب دامت برکاتہم القدسیہ الطلاق مرتان والی آیت کے تحت فرماتے ہیں:

یہ آیت ایک عورت کے متعلق نازل ہوئی جس نے سرکارِدوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ اس کے شوہر نے کہا ہے کہ وہ اس کو طلاق دیتا رہے گا اور رجوع کرتا رہے گا اور ہر مرتبہ جب طلاق کی عدت گزرنے کے قریب ہوگی تورجوع کرلے گا اور پھر طلاق دیدے گا، اسی طرح عمر بھر اس کو قید رکھے گا اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

(البحر المحیط، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۲۹، ۲ / ۲۰۲)

اور ارشاد فرمادیا کہ طلاق رَجعی دو بار تک ہے اس کے بعد طلاق دینے پررجوع کا حق نہیں۔ آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ مرد کو طلاق دینے کا اختیار دو بار تک ہے۔ اگر تیسری طلاق دی تو عورت شوہر پر حرام ہوجائے گی اور جب تک پہلے شوہر کی عدت گزار کر کسی دوسرے شوہر سے نکاح اور ہم بستری کرکے عدت نہ گزار لے تب تک پہلے شوہر پر حلال نہ ہوگی۔ لہٰذا ایک طلاق یا دو طلاق کے بعد رجوع کرکے اچھے طریقے سے اسے رکھ لو اور یا طلاق دے کر اسے چھوڑ دو تاکہ عورت اپنا کوئی دوسرا انتظام کرسکے۔ اچھے طریقے سے روکنے سے مراد رجوع کرکے روک لینا ہے اور اچھے طریقے سے چھوڑ دینے سے مراد ہے کہ طلاق دے کر عدت ختم ہونے دے کہ اس طرح ایک طلاق بھی بائنہ ہوجاتی ہے۔

((تفسیر صراط الجنان تحت الآیۃ الطلاق مرتان))

واللہ ورسولہ اعلم باالصواب

کتبہ انتظار حسین مدنی
09/11/2022

اپنا تبصرہ بھیجیں