کیمیکل کی کمپنی کے متعلق سوال

مفتی صاحب ایک کمپنی جو ترکی میں مثلاً ABC کے نام سے رجسٹرڈ ہے ، یہ کیمیکل کی کمپنی ہے، چند ملکوں میں کام کرتی ہے، پاکستان میں یہ کمپنی رجسٹرڈ نہیں اور نہ ہی اسکا کوئی سیٹ اپ ہے، لوگ اپنے طور پر اس کمپنی کی چیز منگوا کر سیل کرتے ہیں، کیا ہم پاکستان میں ABC کے نام سے مذکورہ برانڈ رجسٹرڈ کروا سکتے ہیں اور یوں باہر سے کیمیکل منگوا کر ABC کے نام سے سیل کر سکتے ہیں.

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ
اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جب آپ، مخصوص کمپنی کے نام پر اسی کمپنی کے تمام اجزاء فروخت کر رہے ہیں تو اس میں جھوٹ و دھوکہ نہیں لہذا ایسا کرنے میں شرعا کوئی حرج بھی نہیں، البتہ اس کمپنی کے نام پر رجسٹریشن کروانے کے متعلق حکم یہ ہے کہ اگر ایسا کرنا انٹر نیشنل قوانین کے مخالف ہو تو بچنا چاہیے، اور اگر اس قانون کی مخالفت پر آپ کے خلاف کیس ہونے کا قوی خدشہ ہو تو پھر ایسا کرنا جائز نہیں کیونکہ ہر وہ غیر قانونی کام جس پر ذلت کا قوی اندیشہ ہو جائز نہیں….

قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالی ارشاد فرماتا ہے : ” اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰواؕ ” ترجمہ : اللہ نے خرید و فروخت کو حلال کیا اور سود کو حرام کیا.
(القرآن ،البقرۃ ، آیت نمبر 275)

ایک اور مقام پر ہے : ” یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ ” ترجمہ : اے ایمان والو! باطل طریقے سے آپس میں ایک دوسرے کے مال نہ کھاؤ البتہ یہ (ہو) کہ تمہاری باہمی رضامندی سے تجارت ہو.
( القرآن ، النساء ، آیت نمبر 29)

مسلمان کی شان یہی ہے کہ وہ دھوکہ کے بغیر تجارت کرے جیسا کہ صحیح مسلم شریف میں ہے : ” عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم مر على صبرة طعام فأدخل يده فيها، فنالت أصابعه بللا فقال: «ما هذا يا صاحب الطعام؟» قال أصابته السماء يا رسول الله، قال: «أفلا جعلته فوق الطعام كي يراه الناس، من غش فليس مني» یعنی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم غلہ کی ڈھیری کے پاس سے گزرے، اُس میں ہاتھ ڈالا تو حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو اُنگلیوں میں تری محسوس ہوئی، ارشاد فرمایا : اے غلہ والے یہ کیا ہے؟ اُس نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اس پر بارش کا پانی پڑ گیا تھا، ارشاد فرمایا کہ تو نے بھیگے ہوئے کو اوپر کیوں نہیں کر دیا کہ لوگ دیکھتے جو دھوکا دے وہ ہم میں سے نہیں.
[صحيح مسلم، کتاب الإیمان ، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم من غشنا فلیس منا ،حدیث نمبر 102، – 1/99]

فتاویٰ یورپ میں مفتی عبدالواحد صاحب علیہ الرحمتہ فرماتے ہیں : ” بے شک اپنی ملکیت میں ہر آدمی کو جائز حد تک تصرف کا اختیار ہے اور اپنے مال و سامان سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے لیکن کسی دوسرے کو اُسے نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں، کیونکہ شریعتِ اسلامیہ نے نقصان و ضرر برداشت کرنے اور کسی دوسرے کو نقصان ضرر پہنچانے دونوں سے منع فرمایا “لا ضرر ولا ضرار فی الإسلام ” پس کوئی سامان خرید کر اسکی نقلیں اتارنا پھر اسے بازار میں فروخت کرنا، اسکی کمپنی یا اصل موجد یا بائع کو نقصان و ضرر پہنچانا ہے، اور جہاں یہ صورت پائ جائے اسلام اسکی اجازت ہر گز نہیں دے سکتا ”
( فتاوی یورپ ، صفحہ 444-445 )

مزید فرماتے ہیں : ” اپنی دوکان یا فارم یا تنظیم کا کوئی نہ کوئی نام رکھ لینے کا حق ہر آدمی کو حاصل ہے، لیکن اگر کوئی نام کسی نے رکھ لیا اور اسی نام سے اسکا مفاد وابستہ ہو گیا، تو اب دوسرے شخص کو یہ حق نہ رہا کہ اسی نام کا استعمال کرے، خصوصاً ایسی صورت میں جبکہ وہ نام رجسٹریشن بھی ہو چکا ہو ، کیونکہ اس میں عوام کو دھوکہ دینے اور ایک بھائی کے تجارتی مفاد کو غصب کرنے کے علاوہ آئینی جرم کا ارتکاب بھی ہے.”
( فتاوی یورپ ، صفحہ 443)

اپنے آپ کو ذلت پر پیش کرنا درست نہیں چنانچہ ابن ماجہ شریف میں ہے : ” قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا ينبغي للمؤمن أن يذل نفسه»” ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کسی مومن کے لائق نہیں کہ وہ اپنے آپ کو ذلت و رسوائ میں پیش کرے.
(ابن ماجه، سنن ابن ماجه،کتاب الفتن، حدیث نمبر 4016 ، 1332/2)

فتاوی رضویہ میں ہے : ” کسی جرم قانونی کا ارتکاب کر کے اپنے آپ کو ذلت پر پیش کرنا بھی منع ہے۔ حدیث میں ہے : ” من اعطی الذلۃ من نفسہ طائعا غیر مکرہ فلیس منّا ” یعنی جو شخص بغیر کسی مجبوری کے اپنے آپ کو ذلت پر پیش کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
(فتاویٰ رضویہ ، جلد 29 ، صفحہ 93 ، رضا فاؤنڈیشن لاہور)

ایک اور مقام پر ہے : ” ایسے امر کا ارتکاب جو قانونا ناجائز ہے ، اور جرم کی حد تک پہنچے شرعا بھی ناجائز ہوگا کہ ایسی بات کے لئے جرم قانونی کا مرتکب ہو کر اپنے آپ کو سزا اور ذلت کے لئے پیش کرنا شرعا بھی روا نہیں۔”
(فتاویٰ رضویہ ، جلد 20 ، صفحہ 192 ، رضا فاؤنڈیشن لاہور)

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب

کتبہ : ابو الحسن حافظ محمد حق نواز مدنی

اپنا تبصرہ بھیجیں