اپنی بیوی کو لفظِ آزاد اگر حالت غضب میں کہا تو طلاق بائنہ پڑجائے گی

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ شوہر اگر غصے میں اپنی بیوی سے کہے کہ میں نے تجھے آزاد کیا یا کہا تم میری طرف سے آزاد ہو،اگر اس جملے میں طلاق کی نیت ہو یا نہ ہو تو کیا حکم ہے؟ نیز اس جملے کے بعد رجوع کا کیا طریقہ ہوگا؟۔

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

کسی شخص نے اپنی بیوی کو لفظِ آزاد اگر حالت غضب میں کہا تو طلاق بائنہ پڑجائے گی اور نکاح ٹوٹ جائے گاکہ یہ لفظ کنایہ ہے اور یہ نہ رد کا احتمال رکھتا ہے نہ گالی کااس لئے حالتِ غضب میں محتاج نیت نہیں۔اگر یہ تیسری طلاق نہیں تھی تواگر دونوں راضی ہوں تو رجوع کی صورت نکاح ہے چاہے عدت کے اندر ہویا بعد میں۔

درمختار مع تنویر الابصار میں ہے: (ونحو ۔۔ أنت حرة،۔۔۔لا يحتمل السب والرد۔۔۔)۔۔۔(وفي الغضب) توقف (الأولان) إن نوى وقع وإلا لا ترجمہ:تو آزاد ہے یہ ڈانٹ اور رد کا احتمال نہیں رکھتا اور غصے میں صرف ڈانٹ اور رد والی صورت میں نیت کی ضرورت ہوتی ہے۔(فتاوی شامی،کتاب الطلاق،باب الکنایات،3/301،دارالفکر بیروت)

اسکے تحت شامی میں ہے: بخلاف ألفاظ الأخير: أي ما يتعين للجواب لأنها وإن احتملت الطلاق وغيره أيضا لكنها لما زال عنها احتمال الرد والتبعيد والسب والشتم اللذين احتملتهما حال الغضب تعينت الحال على إرادة الطلاق فترجح جانب الطلاق في كلامه ظاهرا، فلا يصدق في الصرف عن الظاهر، فلذا وقع بها قضاء بلا توقف على النية كما في صريح الطلاق ترجمہ:یہ آخری الفاظ تو جواب ہی کے لئے متعین ہیں کہ اگرچہ یہ طلاق یا غیر ِ طلاق کا احتمال رکھتے ہیں،لیکن جب یہاں ڈانٹ ڈپٹ، رد وغیرہ جن کا حالت ِ غضب میں احتمال تھا ان کا احتمال ہی نہیں تو پھر ارادہ طلاق ہی متعین ہو گیا، تو ظاہر ی کلام سے جانبِ طلاق ترجیح پاگئی ۔اب ظاہر حال سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اس کی تصدیق نہیں ہوگی۔تو قضاء فورابغیر نیت دیکھے طلاق ہوگئی جیسے صریح طلاق۔

(فتاوی شامی،کتاب الطلاق،باب الکنایات،3/301،دارالفکر بیروت)

فتاوی رضویہ میں ہے:آزاد کیا اگرچہ نہ محتمل رد ہے نہ محتمل سب،اور حالتِ غضب ہے توطلاق مطلقا ہونی چاہیے تھی۔

(فتاوی رضویہ،طلاق کنایہ کابیان،12/623،رضا فاونڈیشن لاہور)

فتاوی رضویہ میں ہے:[عور ت کو تین بار کہا میں نے تجھے آزاد کیا]صورت مسئولہ میں عورت پر ایک طلاق ِبائن واقع ہوئی یعنی عورت نکاح سے نکل گئی۔۔۔حلالے کی اصلا حاجت نہیں جب کہ اس بار سے پہلے کبھی دو طلاقیں نہ دے چکا ہو،زن ومرد اگر راضی ہوں تو شوہر عدت میں اور بعد عدت اس سے نکاح جدید کرسکتا ہے۔

(فتاوی رضویہ،طلاق کنایہ کابیان،12/587،رضا فاونڈیشن لاہور)

واللہ اعلم بالصواب کتبہ تیمور احمد صدیقی عطاری

16.11.22

اپنا تبصرہ بھیجیں