سفر میں قصر نماز

کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کوئی شخص اپنے شہر سے کسی دوسری جگہ کام کے سلسلہ میں جاتا ہے جو کہ 70 سے 80 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے ۔تو اس جگہ تک پہنچنے کے لیے وہ ایسا راستہ اختیار کرتا ہے جو کہ 100 کلو میٹر سے زائد کا ہے تو کیا وہ شخص اس سفر میں قصر نماز ادا کرے گا یا پوری نماز پڑھے گا؟

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
الجواب بعون الملک الوہاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب ۔

اگر دونوں شہروں کے درمیان بیانوے کلومیٹر یا اس سے زائد سفر ہے تو اس سفر میں وہ شخص قصر نماز ادا کرے گا کیونکہ اس شخص نے جو راستہ کیا ہے وہ 100 کلومیٹر سے زائد کا ہے تو اس مسئلہ میں اس کے اختیار شدہ راستہ پر حکم لگے گا ۔

فتاوی عالمگیری میں ہے کہ ۔
“وَتُعْتَبَرُ الْمُدَّةُ مِنْ أَيِّ طَرِيقٍ أَخَذَ فِيهِ، كَذَا فِي الْبَحْرِ الرَّائِقِ فَإِذَا قَصَدَ بَلْدَةً وَإِلَى مَقْصِدِهِ طَرِيقَانِ أَحَدُهُمَا مَسِيرَةُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ وَلَيَالِيِهَا وَالْآخَرُ دُونَهَا فَسَلَكَ الطَّرِيقَ الْأَبْعَدَ كَانَ مُسَافِرًا عِنْدَنَا۔

ترجمہ۔ مدت کا اعتبار اس کے راستہ اختیار کرنے پر ہوگا۔ اسی طرح بحر الرائق میں ہے ایک شہر کو جانے کے دو رستے ہیں ان میں سے پہلا راستہ تین دن اور تین رات کی مسافت سے کم ہے اور دوسرا راستہ زیادہ ہے تو اگر اس نے دوسرا راستہ اختیار کیا تو وہ مسافر ہو گا ہمارے نزدیک۔
(’’ الفتاوی الھندیۃ ‘‘ ، کتاب الصلاۃ، الباب الخامس عشر في صلاۃ المسافر، ج ۱ ، ص ۱۳۸۔ مکتبہ شاملۃ)

اس بارے میں مفتی امجد علی اعظمی رحمہ اللہ بہار شریعت میں فرماتے ہیں کہ ۔

کسی جگہ جانے کے دو راستے ہیں ایک سے مسافت سفرہے دوسرے سے نہیں تو جس راستہ سے یہ جائے گا اس کا اعتبار ہے، نزدیک والے راستے سے گیا تو مسافر نہیں اور دور والے سے گیا تو ہے، اگرچہ اس راستہ کے اختیار کرنے میں اس کی کوئی غرض صحیح نہ ہو۔
( بہار شریعت ,جلد 1 ،جز (ب) حصہ چہارم , صفحہ 741۔مطبوعہ مکتبۃالمدینہ باب المدینہ کراچی ۔)

کتبہ ابوالحسنین محمود احمد رضوی

اپنا تبصرہ بھیجیں